محمد حنیف خان
معاشرے میں بزرگوں کی اہمیت اس چھتنار درخت کی طرح ہے جو سخت دھوپ میں سایہ فگن رہتا ہے،اس کے باوجود آج وہ تنہائی اور غلط برتاؤ کے شکار ہیں،کہاجاتا ہے ہے کہ ہندوستان نوجوانوں کا ملک ہے،جس کا مطلب یہ ہے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ہماری پروڈکشن قوت زیادہ ہے،لیکن ایسی قوت سے کیا فائدہ جو انسانوں کو طاقتور بنانے والے کو دکھ درد سے بھردے۔ نوجوانوں نے خواہ مرد ہو یا عورت بزرگ والدین کو ایسے کونے کھدرے میں ڈال دیا ہے جہاں معاشرتی انقلاب کی روشنی نہیں پہنچ رہی ہے اور ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں،جس معاشرے کا نوجوان اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوجائے اس سے نہ تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ خوبصورت مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کے نوجوان خود اپنا ہی مستقبل تباہ کر رہے ہیں کیونکہ جہاں آج ان کے والدین ہیں کل وہ بھی اسی مقام پر پہنچیں گے،اس وقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک صورت حال ہوگی۔
مادیت اور ترقی کی تیز رفتاری نے نوجوانوں کی نظروں کو نہ صرف خیرہ کردیا ہے بلکہ ان کے اندر سے اخلاقیات اور احساسات و جذبات بھی نکال لیے ہیں۔انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اخلاقیات اور احساسات ہیں،جبکہ مادیت کے یہی دو سب سے بڑے دشمن ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقیات اور احساسات دونوں کی شکست ہوچکی ہے اور مادیت نے پوری طرح سے ہندوستانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا توہمیں زندگی کا سبق پڑھانے والے ہمارے والدین آج معاشرے میں دردبدری کا شکار نہ ہوتے۔
بزرگوں کی زندگی بہتربنانے کے لیے کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’’ہیلپ ایج انڈیا‘‘ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق 79فیصد بزرگ تنہائی اور 47فیصد اپنے بچوں کے ذریعہ غلط برتاؤ کا شکار ہیں۔ 59فیصد بزرگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جاتاہے جبکہ محض 10فیصد ایسے بزرگ ہیں جو اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کے بچے غلط برتاؤ کرتے ہیں،جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بدنامی نہیں چاہتے ہیں،یہ ان کی محبت کی نشانی ہے کہ وہ اس رویہ کے باوجود اپنے بچوں کومعاشرے میں بہتر پوزیشن میں دیکھناچاہتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق 74فیصد بزرگ یہ مانتے ہیں کہ معاشرے میں بزرگوں کے ساتھ غلط برتاؤ بالکل عام بات ہے۔35فیصد بزرگ اپنے بیٹوں سے اور 44فیصد اپنی بہوؤں کے غلط برتاؤ کا شکار ہیں۔قومی سطح پر47فیصد بزرگوں نے اس رویہ سے تنگ آکر اپنے ہی اہل خانہ سے بات کرنا بند کردیا ہے۔جبکہ ملک کی راجدھانی دہلی میںیہ گراف 83فیصد ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ 46فیصد ایسے بزرگ ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ ان کے تحفظ اور سکون کے لیے کوئی قانون بھی بنا ہے۔دہلی میں یہ گراف 38فیصد ہے جبکہ بنگلور میں یہ80فیصد ہے۔صرف 13 فیصد ایسے بزرگ ہیں جو ’’والدین ومعمر شہری دیکھ بھال ایکٹ 2007‘‘سے واقف ہیں۔جب شہری علاقوں کا یہ حال ہے تو دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ چونکہ اس طرح کے سروے شہروں تک ہی محدود رہتے ہیں ایسے میں دیہی علاقوں میں زندگی گزارنے والے بزرگ نہ صرف اس طرح کے کسی ایکٹ سے واقف ہیں بلکہ ان میں 90فیصد سے زائد بزرگ معاشی ابتری کا شکار ہیں۔شہری علاقوں میں52 فیصد بزرگوں کی آمدنی غیرمعقول ہے جبکہ 40فیصد معاشی سطح پر غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔57فیصد بزرگ ایسے ہیں جن کی آمدنی خرچ سے کم ہے اور 45فیصد کی پنشن سے ان کا گزارا نہیں ہوپاتا۔71فیصد بزرگوں کے پاس اینڈرائڈ موبائل فون نہیں ہے اور جولوگ اینڈرائڈ فون استعمال بھی کرتے ہیں، ان کو بینکنگ وغیرہ کا علم نہیںہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی دوسروں پر منحصر رہتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل تکنیک عدم رسائی اور لاعلمی کی وجہ سے وہ آن لائن سہولیات سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں،74فیصد ایسے افرادہیں جوڈیجیٹل تکنیک کی تربیت پر زور دیتے ہیں تاکہ بزرگوں کا بچوں پر انحصار کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکیں۔58فیصد بزرگ یہ مانتے ہیں کہ نوجوانوں کی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ساتھ وہ اچھا برتاؤ کریں اور ان کی زندگی کا سورج پرسکون انداز میں بام تک پہنچ سکے جبکہ 56فیصد ایسے بزرگ ہیں جو ’’ایج فرینڈلی رسپانس سسٹم ‘‘بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس طرح کی رپورٹس نہ صرف سماجی ڈھانچے کی قلعی کھول دیتی ہیں بلکہ اس سے معاشرے کی اخلاقی قدروں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ہندوستان کی بنیاد ہی اخلاقیات پر ہے۔ ایسے میں اگر وہی اخلاقی قدروں سے اتنا تہی دست ہوجائے کہ وہ والدین جنہوں نے اس کی پرورش کی،تعلیم و تربیت پر زر کثیر صرف کیا،جس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے انہوں نے اپنی جوانی قربان کردی اور اپنی کمائی خرچ کردی، اسی کے ذریعہ اگران کے ساتھ غلط برتاؤ کیا جاتا ہے،ان بزرگوں کے لیے اگر نوجوان نسل کے پاس وقت نہیں ہے تو یقینا یہ اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار ہونے کی علامت ہے۔
اولڈ ایج ہوم میں رہنے والے بزرگوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ نوجوان نسل اس وقت تک نہیں کرسکتی ہے جب تک وہ خود وہاں نہیں پہنچ جائے گی لیکن اس وقت اس کے پاس تلافی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا بلکہ وہ وقت ایسا ہوگا جب وہ خود اپنے عمل کا نتیجہ بھوگ رہا ہوگا۔اولڈ ایج ہوم کا تصور نہ صرف شہروں میں ہے بلکہ معاشی سطح پر مضبوط گھرانوں میں ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غریبوں کے مقابلے معاشی طور پر مضبوط خاندان کے نوجوانوں میں جذبات و احساسات اور اخلاقیات کا زیادہ فقدان ہے اور وہ اپنی جڑوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ کٹ رہے ہیں۔کسی بھی پل کے نیچے اور سڑکوں کے کنارے گزر بسر کرنے والے بزرگوں کا تعلق اونچے خاندان کے بچے نچلے طبقات سے ہوتاہے جو معاشی تنگی کا شکار ہوتا ہے،ان میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نشے کی لت کی وجہ سے بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں۔لیکن ان میں سے دونوں کے سر پر چھت نہیں۔دیہی علاقوں کے بزرگ اپنی جوانی میں انتھک محنت کرتے ہیں اور جب انہیں بڑھاپا گھیر لیتا ہے تو گھر کے باہری کمرے میں یا پھر جانوروں والے باڑے کے آس پاس ان کا ٹھکانہ بنا دیا جاتا ہے۔دیہی اور شہری دونوں علاقوں کے بزرگوں کی کیفیت مجموعی طور پر یکساں نظر آتی ہے جس کے لیے جہاں معاشرہ ذمہ دار ہے، وہیں حکومت بھی برابر کی شریک ہے کیونکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے،معاشی اور سماجی دونوں سطحوں پر ایسا ماحول تیار کرے کہ بزرگوں کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن ایج فرینڈلی میکانزم تیار کرنے کے بجائے اس نے پانچ سو روپے کی پنشن دے کر خود کو سبھی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرلیا ہے۔کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ پانچ سو روپے کی معاشی گارنٹی سے بزرگوں کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ اس کو پانچ سو روپے کی گارنٹی دینے سے قبل سماجی سطح پر تحفظ دینا چاہیے۔
یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے ہندوستان کو ایک عظیم ملک بنایا ہے،آج یہ بڑھاپے کا شکار ہوچکے ہیں لیکن کل یہی سرحدوں کی حفاظت کررہے تھے، کارخانوں میں سرگرمی ان ہی کی وجہ سے تھی،کمپنیوں میں شور ان کا ہی مرہون منت تھا،کھیتوں میں یہی ہل چلا رہے تھے،اونچی اونچی عمارتیں بنا کر ملک کا بنیادی ڈھانچہ یہی کھڑا کر رہے تھے،ایسے میں یہ صرف اپنے بچوں کے محسن نہیں ہیں بلکہ ان کا احسان پورے ملک پر ہے۔اس لیے حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو صرف قانون سازی تک محدود نہ رکھے بلکہ بزرگوں کے تحفظ اور قابل احترام زندگی کے لیے لائحہ عمل تیار کرے،منصوبے بنائے ا ور انہیں زمینی سطح پر نافذ بھی کرے کیونکہ صرف کاغذات میں دفن رہنے سے ان قوانین یا منصوبوں کا فائدہ ان بزرگوں کو نہیں ملنے والا ہے۔آج کے نوجوانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کل عمر کا پہیہ ان کو بھی اسی مقام پر پہنچائے گا،اس وقت ان کی کیا حالت ہوگی،اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے، اس سے جہاں ان کے بچوں کی عملی تربیت ہوگی وہیں ان کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔انسان کی پہچان اخلاقیات اور احساسات و جذبات ہیں جن کا سب سے پہلے اظہار والدین کا اپنے بچوں اور بچوں کا والدین کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے بزرگ معاشرے میں غلط برتاؤ کے شکار ہیں۔
[email protected]