معیشت کا تضاد

0

گزشتہ ہفتہ ہندوستانی معیشت کے افق پر بیک وقت دو متضاد خبریں طلوع ہوئی ہیں،جو قومی ترقی کے بیانئے میں ایک عجیب قسم کی دوئی کو جنم دیتی ہیں۔ ایک طرف تو یہ اعلان خوش کن ہے کہ ہندوستان نے جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت کا تاج اپنے سر پر سجا لیا ہے۔ چار ٹریلین ڈالر کی اقتصادی وسعت اور مستقبل قریب میں پانچ ٹریلین ڈالر کی منزل کے امکانات ،ہر شہری کیلئے ایک فخر کا مقام ہو سکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف، اس ترقی کی چمک کے پیچھے ایک ایسی تشویش ناک تاریکی بھی ہے جسے نظرانداز کرنا قومی خود فریبی کے مترادف ہو گا۔

ریزرو بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ مالی سال 2025 میں خالص غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) میں حیرت انگیز طور پر 96 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ ایک معمولی اعداد و شمار کا اتار چڑھائو نہیں بلکہ معیشت کے پرخطر رخ کی نشان دہی ہے۔ 2024 میں جہاں خالص ایف ڈی آئی 10.13 بلین ڈالر تھی وہیں 2025 میں یہ محض 350 ملین ڈالر پر سمٹ گئی ہے۔ اتنی شدید گراوٹ محض کسی عارضی عالمی جھٹکے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے اسباب اندرون خانہ بھی تلاش کرنے ہوں گے۔سرمایہ نکالنے کا فیصلہ محض کاروباری حکمت عملی نہیں بلکہ یہ اعتماد کے فقدان کا اشاریہ ہے ہمیں یہ سوچنا ہوگاکہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ جنہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہندوستانی منڈی میں اپنا اعتماد متزلزل کرنے پر مجبور کیا؟ کیا یہ محض منافع خوری کی ذہنیت ہے یا پھر ہمارے مالیاتی ،قانونی اور پالیسی ڈھانچے میں کوئی ایسی خامی ہے جس نے انہیں اس فیصلے پر آمادہ کیا؟

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس سال ہندوستانی کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آئوٹ ورڈایف ڈی آئی 16.68 بلین ڈالر سے بڑھ کر 29.20 بلین ڈالر تک جا پہنچی ہے جو کہ تقریباً 75 فیصد کا اضافہ ہے۔ یقینا یہ ہندوستانی صنعتکاروں کی عالمی سطح پر وسعت کی جستجو کا مظہر ہے مگر اس جستجو کے نتیجے میں اگر ملکی سرمایہ ملک سے باہر چلا جائے اور داخلی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے تو یہ صورتحال باعث افتخار کے بجائے قابل تشویش بن جاتی ہے۔ حکومت نے جب گھریلو کمپنیوں کو کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ دی تھی تو مقصد یہی تھا کہ وہ منافع کو ملک میں ہی لگائیں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں مگر اس توقع کو حقیقت بنتے دیکھنا ہنوز ایک خواب ہی رہا۔آج ایف ڈی آئی کے میدان میں چند مخصوص ریاستیں مہاراشٹر‘ گجرات‘ تمل ناڈو‘ کرناٹک وغیرہ سرفہرست ہیں جبکہ مغربی بنگال‘بہار اور اڈیسہ جیسی ریاستیں سرمایہ کاری کے معاملے میں مسلسل پسماندہ ہیں۔ یہ علاقائی غیر برابری بھی ایک ایسے سوالیہ نشان کی شکل میں ابھرتی ہے جس کا جواب محض وفاقی نظام کے نام پر ٹال دینا مناسب نہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ غیر ملکی سرمایہ صرف ایف ڈی آئی تک محدود نہیں۔ فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ (FPI) کی مد میں اس سال 2.67 بلین ڈالر کا خالص سرمایہ آیا ہے جو خالص ایف ڈی آئی سے چھ گنا زیادہ ہے۔لیکن ایف پی آئی چونکہ زیادہ تر منافع خوری پر مبنی ہوتی ہے اس لئے یہ مستحکم اور دیرپا سرمایہ کاری کا متبادل ہرگز نہیں بن سکتی۔ معیشت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے ہمیں طویل مدتی‘ صنعتی اور بنیادی ڈھانچے سے جڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ،نہ کہ محض شیئر بازار کی تیزی سے پھلنے والے بلبلے۔ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رکھنے کیلئے ٹھوس پالیسی اقدامات کرے بلکہ گھریلو کمپنیوں کو ملک کے اندر سرمایہ لگانے کیلئے پرکشش مواقع بھی فراہم کرے۔ جس طرح امریکہ جیسی معیشت اپنے صنعتکاروں کو وطن میں پیداوار پر آمادہ کرتی ہے ویسی ہی فہم و فراست ہندوستانی پالیسی سازوں کو بھی دکھانا ہو گا۔

ورنہ ترقی کے اعداد و شمار کا پہاڑ کھڑا ہونے کے باوجود عام آدمی کی زمین پر بے روزگاری ،مہنگائی اور عدم تحفظ کی دلدل باقی رہے گی۔کیوں کہ کسی ملک کی معیشت کے استحکام ،پھیلاؤ اور توانائی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاسکتا کہ اس کی معیشت کا حجم کیا ہے بلکہ کسی معاشرے کے معاشی استحکام کی محک یہ ہے کہ وہاں فی کس آمدنی کی اوسط کیا ہے ۔جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی چوتھی معیشت کا تاج اپنے سر پر سجالینے کے باوجود قارورہ کچھ اورہی بتاتا ہے۔ مسلمہ اور مصدقہ رپورٹ ہے کہ فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندستان دنیاکے 194 ممالک کی فہرست میں 143ویں نمبر پر ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف معاشی ترقی کے اعداد و شمار پر نہ اترائیں بلکہ اس کے معیار، استحکام اور انصاف پر بھی توجہ دیں۔ بصورت دیگر معیشت کی رفتار جتنی بھی تیز ہو منزل کا پتہ کھو جانے کا خطرہ ہمیشہ قائم رہے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS