اپوزیشن کا تیر نیم کش

0

بہار اقتدار کے خوش رنگ موسموں پر خزاں کے خطرات منڈلانے لگے ہیں، رنگ آسماں بھی بدلنے لگا ہے۔خود کو اساطیری اور دیومالائی کردار ثابت کرنے میں آخری سکہ بھی خرچ کرڈالنے والے عالی مرتبت حکمرانوں کے جاہ و حشم کی کوکھ سے ابلنے والے جھوٹ، فریب، مکر و زور، ریاکاری، دشمنی، فرقہ واریت، نرگسیت بلکہ خودی پسندی ہی نہیں خودپرستی کا ننگ اجاگر ہوگیا ہے۔ خداکے لہجہ میں بولنے والوں کی رعونت پر ووٹروں نے خاک ڈال دی ہے۔

ڈھائی مہینوں کی انتخابی زورآزمائی کے نتائج آنے شروع ہوگئے ہیں، اب تک کے رجحانات سے واضح ہوگیا ہے کہ قطعی اکثریت تک رسائی سے قبل ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سانس اکھڑنے لگی ہے۔ تیسری بار لوگ بھلے ہی ملک کا بوجھ نریندر دامودر داس مودی کے کاندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ تاہم ووٹوں کی گنتی کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کو 2014 اور 2019 کی طرح پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میںقطعی اکثریت نہیں مل رہی ہے۔ ’ اب کی بار-400پار‘ کا نعرہ دینے والے زعفرانی خیمہ کے حصہ میں543نفری ایوان میں حکومت سازی کیلئے مطلوب 272 نشستوں کے مقابلے میں 250سے بھی کم آنے کا امکان ہے۔

ممکن ہے دیر رات گنتی کا آخری رائونڈ مکمل ہونے تک ایک دو نشستوں کی کمی بیشی ہو لیکن یہ طے کہ ایک دہائی بعد ہندوستان جنت نشان میں ایک جماعتی حکومت کا خاتمہ ہورہا ہے اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ باضابطہ طور پر واپس ہونے والا ہے۔ اگر نریندر مودی حکومت سازی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ملک کی تاریخ میں ایسے وزیراعظم ہوںگے جو تیسری بار اقتدار میں آئے لیکن اس معاملہ میں آنجہانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی طرح وہ لگاتار تین بار قطعی اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ نہیں کرسکے۔ حالانکہ خود وزیراعظم نے کئی بار دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر 370 سیٹیوں پر جیت حاصل کرے گی اور این ڈی اے 400کاہندسہ عبور کرلے گا۔اب تک کے رجحانات بتارہے ہیں کہ ٹیم مودی کو مرکز میں حکومت سازی کیلئے این ڈی ا ے کے دو شراکت داروں چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹڈ(جے ڈی یو) پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اتفاق سے دونوں لیڈروں کی ماضی میں کئی بار این ڈی اے چھوڑنے اور واپس آنے کی تاریخ رہی ہے۔اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں کی موقع پرستی کا اونٹ کس قیمت پر کس کروٹ بیٹھے گا۔

400پار کا نعرہ دینے والے نریندر مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتاپارٹی کی سب سے بڑی ناکامی تو یہ ہے کہ ’ رام مندر‘ کا جادو بھی ناکام ثابت ہوا اور فیض آباد پارلیمانی حلقہ جہاں اجودھیا واقع ہے، سے بی جے پی امیدوار کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ وہ اتر پردیش سے نہ صرف کانگریس بلکہ سماج وادی پارٹی کا بھی صفایا کردے گی لیکن اترپردیش کے ووٹروں نے اس دعوے کو غلط ثابت کر دکھایا۔ تازہ ترین صورتحا ل یہ ہے کہ ریاست کی 80 سیٹوں میں سے سماج وادی پارٹی 38 سیٹوں پر اور کانگریس 6سیٹوں پر آگے ہے۔ بی جے پی 32 سیٹوںتک محدود ہوتی نظر آرہی ہے، حتمی نتائج آنے پر ان اعداد و شمار میں تبدیلی بھی متوقع ہے لیکن ان سے کم و بیش یہ اشارہ ملتا ہے کہ اترپردیش کے ووٹر ہندو مسلم تقسیم کی سیاست سے اوب چکے ہیں، وہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر وہ مندر اور مذہب کو چھوڑ کر بنیادی مسائل پر ووٹ دیں گے تو ان کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ووٹروں کی اس ذہن سازی میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور سماج وادی پارٹی لیڈر اکھلیش یادوکا بڑا دخل رہاہے جو ووٹروں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے کہ ملک کے آئین اور جمہوریت کو تو خطرہ ہے ہی او بی سی کو ملنے والے ریزرویشن بھی بحران کے گرداب میں ہیں۔ اترپردیش کے ووٹروں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا اور گوبر کے داغ کو دھونے کی کوشش کی۔مغربی بنگال میں بی جے پی کے عظیم لیڈر نریندر مودی نے دو درجن سے زائد انتخابی جلسے کیے، ریلیاں کیں حتیٰ کہ 10 کلو میٹر پیدل یاترا بھی کی لیکن اس کے باوجود ان کی آرزوئوں کے کنول پر وہ بہار نہیں آئی جس کے وہ متمنی تھے۔اس ریاست میں پہلے سے قابض 20سیٹوں میں سے 8 سیٹیں گنوا کر 12تک محدود ہوتے نظر آرہے ہیں۔

رجحان اور نتائج بتارہے ہیں کہ لوک سبھا انتخاب 2024 ہندوستان کی قومی سیاست سے کانگریس کی ہم آہنگی بڑھ رہی ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کیلئے کسی پارٹی کا 55 نشستوںپر جیت حاصل کرنا لازمی ہے لیکن کانگریس 2014 میں 44 اور 2019 میں52 سیٹوں پر محدود رہ گئی تھی اور پارلیمانی ضابطہ کے مطابق اسے لوک سبھا میں باضابطہ اپوزیشن پارٹی یا اس کے کسی لیڈر کو باضابطہ اپوزیشن لیڈر کا درجہ نہیں ملا تھا۔مگر اس بار 2024میں اب تک رجحانات کے مطابق کانگریس 99یا اس سے زائد سیٹوں پر کامیابی کا پرچم لہرا رہی ہے اور ’ انڈیا‘ اتحاد میں شامل پارٹیاں مجموعی طور پر 200کا ہندسہ عبور کرنے جارہی ہیں۔اس کے نتیجے میں اس بار مستحکم، توانا اور جارح اپوزیشن تیر نیم کش کی طرح اقتدار کے سینہ میں پیوست رہے گا اوراس کی کسک بہار اقتدار کو خزاں کی یاد دلاتی رہے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS