پروفیسر اسلم جمشید پوری
آج کل ملک کی سیاست میں فرقہ پرستی کا طو فان اُٹھا ہوا ہے۔کیا یوپی ،کیا اترا کھنڈ اور کیا مہاراشٹر،ہر کوئی بازی مار لے جانے میں لگا ہے۔کہیں شدت سے مسجد کے نیچے مندر تلاش کیے جارہے ہیں،کہیں مذہب تبدیل ہو نے کے واقعات( مسلمان سے ہندو ) ، کہیں یو سی سی کا نفاذ توکہیں 300سال قبل دفن مغل بادشاہ اورنگ زیب کے حوالہ سے ہنگامہ کھڑا کیا جا رہا ہے،تو کہیں سڑک چوڑی کرنے کے نام پر مسجد مسمار کئے جانے کا معاملہ ،کہیں وقف ترمیمی بل کا خوف۔ابھی سنبھل کے زخم بھرے بھی نہیں،پانچ مسلم نوجوانوں کی قبر کی مٹی سوکھی بھی نہیں کہ ناگپور میں فساد بر پا ہو گیا۔ حیرانی کی کوئی بات نہیں، ان سب معاملات میں ایک ہی مشترکہ دشمن ’’ مسلمان ‘‘ ہے۔
بے چارہ مسلمان خاموش ہے۔اس کا کوئی بیان ملک کے قانون کے خلاف نہیں ہے۔یوپی کا مسلمان ہو، اتراکھنڈ کا یا پھر مہاراشٹر کا مسلمان، سب صبر کر رہے ہیں۔ چپ چاپ اپنے رب کی عبادت کررہے ہیں۔ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے والے بھی خاموش ہیں، ان کے منھ پر بھی تالے پڑے ہوئے ہیں،نتیش کمار ہوں یا چندر بابو نائیڈو یا مایاوتی ،اکھلیش ہوں ،اروند کجریوال ہوں یا چندر شیکھر آزاد ہوں۔اگر فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف محاذ آرائی نہیں کی گئی تو ملک کا کیا ہوگا؟ قومی یکجہتی کا کیا ہوگا؟ کچھ شر پسند افراد اور جماعتیں مسلسل فرقہ پرستی کی زبان سے زہر اگل رہی ہیں۔ان کے خلاف سیکولر طاقتیں کوئی احتجاج نہیں کر رہی ہیں۔مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان شر پسند عناصر پر کوئی پابندی نہیں لگا رہیں۔خواہ وہ مرکز کے علاوہ فڑنویس سرکار ہو یا اتر پر دیش کی یو گی سر کار یا اترا کھنڈ اور گجرات سر کار ہو۔لگتا ہے کچھ لوگوں نے سماج میں فساد اور انتشار پھیلانے کا ذمہ لے رکھا ہے۔
ناگپورکا فساد سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔ایک تو اورنگ زیب کو گالیاں دے کر مسلمانوں کے جذ بات کو برانگیختہ کرنے کی کو شش کی اور ناگپور جیسے پر امن شہر میں بد امنی اور فساد پھیلایا۔دکانیں ،گاڑیاں اور مکانات نذر آتش کیے۔دوسرے امن کے نام پر بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری،یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ تو وہی بات ہوئی ،’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘۔
اب آئیے مغلوں سے ایک خاص جماعت کو ہو نے والی تکلیف پر۔اگر مرکزی اورمخصوص صوبائی سرکاروں کو مغل حکومتوں سے بیر ہے تو سب سے پہلے مغلوں کے ذریعہ بنائی گئی یاد گار عمارتوں سے روزانہ ہونے والی آمدنی سے ہاتھ کھینچیں۔اب آئیے اورنگ زیب پر۔تو یہ تاریخ کا معاملہ ہے۔ملک کے کسی نامور تاریخ داں کو لگائیے اور اورنگ زیب کے ذریعہ کیے گئے کاموں کی فہرست بنوائیں۔ ایمانداری سے دیکھیں، انہوں نے ہندوئوں کو نقصان پہنچانے کے کتنے کام کیے،کتنے مندر تڑوائے اور کیوں؟ کتنے مندروں کو دان دیا، زمینیں عطا کیں اور جاگیریں دیں۔ کتنے ہندوئوں کو جبراً اسلام میں داخل کیا؟کتنی دولت لوٹی اور کہاں لے گئے؟ ان کے زمانے میں ہندوستان کہاں تک پھیلا ہوا تھا۔اس نے اپنی کفالت کے لیے کیا کیا۔اپنا شاندار مقبرہ کیوں نہیں بنوایا؟نفرت پھیلانے اور ووٹ بینک بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا، حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔
وقف بل کی بات کریں۔مرکزی سر کار وقف تر میمی بل لانے پر بضد ہے۔پہلے بل کی مخالفت دیکھ کر اسے جے پی سی میں بھیج دیا گیا۔جے پی سی کی ذمہ داری بی جے پی کے سینئر لیڈر جگدمبیکا پال کے حوالے کی گئی۔انہوں نے کمیٹی کی ایک نہیں سنی۔ممبران میں ہاتھا پائی ہوئی۔جھوٹ موٹ کے مختلف شہروں میں جے پی سی کی بیٹھکیں ہوئیں۔میٹنگوں میں وقف کے تعلق سے کوئی سفارشات نہیں سنی گئی۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔جے پی سی نے بل کی حمایت میں رپورٹ پیش کر دی۔پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں سرکار کبھی بھی وقف ترمیمی بل پیش کرسکتی ہے۔ملک کے مسلمانوں نے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کو بل کی مخالفت کے لیے تیار کیا،مگر وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق بات جوں کی توں رہی۔مجبوراً مسلم تنظیموں نے 17 مارچ کو دہلی کے جنتر منتر پر نہ صرف دھرنا دیا بلکہ اپنی طاقت کا احساس کرایا۔ کچھ سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے نتیش کمار ،چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان کی افطار پارٹی میں مسلمانوں سے شرکت کے لیے منع کیا ہے۔یہ لیڈر اصل میں سیکو لرازم کے حمایتی ہیں اور ہر طرح سے این ڈی اے کے خلاف ہیں مگرجب کبھی عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر یہ لوگ این ڈی کی حمایت کرتے ہیں۔وقف بورڈ ترمیمی بل کی مخالفت کی جگہ یہ لوگ اس بل کی حمایت کر رہے ہیں۔
مذہب تبدیلی کا نیا واقعہ سامنے آیا ہے۔مرداآباد میں ایک شخص نے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔اس کی خوب تشہیر کی گئی۔تمام چینلز پر خبریں چل رہی ہیں۔ایک تازہ خبر آئی ہے کہ ضلع کے ایس ایس پی نے اس شخص سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا ہے۔اسے دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس پر کوئی سنگین الزام لگا کر اندر کر دیا جائے گا۔اس کا انکائونٹر بھی ہو سکتا ہے۔ خوفزدہ اس شخص نے جان بچانے کی خاطر مذہب تبدیلی کا اعلان کر دیا اور وقت آنے پر وہ اپنے بیان کو دبائو میں دینے کی بات کہہ دی۔دوسری طرف میرٹھ کے کنکر کھیڑا میں مذہب تبدیلی ایک واقعہ منظرعام پر آیا ہے۔حقیقت پتا کرنے پر علم ہوا کہ ایک عیسائی شخص ہندو عورتوں اور بچوں کا مذہب تبدیل کرا رہا تھا۔ہندو تنظیموں نے اس کی سخت مخالفت کی اور نعرے بازی کی۔
اترا کھنڈ یکساں سول کوڈ،یوسی سی نافذ کرنے والی پہلی ریاست بن گئی۔یہ خبر قومی ہی نہیں بین الاقوامی میڈیا میں چھا گئی۔اترا کھنڈ میں کئی مساجد مسمار کی گئیں۔مدرسے بند کر دیے گئے۔مسلمانوں کے خلاف ہر ظلم عام ہوگیا۔ مسلمانوں نے یو سی سی کی سخت مخالفت کی،مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا،اتراکھنڈ میں قانون نافذ ہو گیا۔فی الحال اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہے۔
سنبھل میں کیا ہوا؟ ہولی کے موقع پر ماحول خراب کرنے کی کو شش کی گئی ،جسے ہندو مسلمانوں کی ایکتا نے ناکام کر دیا۔قومی یکجہتی کی فتح ہوئی۔ ہولی اور رمضان کا جمعہ پر امن گزر گیا۔اب مسجد کی رنگائی پتائی کو لے کر سیاست ہورہی ہے۔تمام رنگوںکو سفید اور نارنگی کیا جا رہا ہے۔مسجد کے بالکل سامنے بڑا سا تھانہ بنایا جا رہا ہے۔ایک بڑے سے احاطے کو پولیس کے رہنے کے لائق بھی بنایا جارہا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ پورے ملک کا ماحول کیسا ہوتا جارہا ہے؟ اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ یہاں کا امن و چین غارت ہوتا جارہا ہے۔کچھ شر پسند طاقتیں اسے اپنا شکار بنانے پر تلی ہیں۔ایسے ماحول میں ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ملک کے سیکولر عوام کو چاہیے کہ صبر سے کام لیں۔قانون ہاتھ میں نہ لیں۔یہ ملک سب کا ہے۔یہاں سب کو رہنے کا برابر حق ہے۔ایسے میں تعلیم،ہم آہنگی اور قانون کا احترام ہی بہتر راستہ ہے۔