نئے وقف قانون سے حکومت کا اوقاف پر قبضہ ہوگا

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

مسلم  مکت بھارت کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کی کوششوں میں لگی بی جے پی اور اس کی حلیف سیاسی جماعتوں (این ڈی اے) نے آخر کار ملک کے مسلمانوں کو دو نمبر شہری کے بعد تیسرے نمبر کا شہری بنانے کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں  ’’مسلم مفاد‘‘ میں پیش کئے گئے وقف ترمیمی بل ’’ امید‘‘کو مخالفت اور حمایت میں لمبی بحث کے بعد پاس کرا لیا اور بلا تاخیر صدر مملکت نے اس بل پر دستخط کر کے قانون بھی بنا دیا اور گزٹ بھی ہو گیا ۔ یوں بھی اس بل کو پاس ہونا ہی تھا ۔ اس لئے کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ چندرا بابو نائیڈوکی ٹی ڈی پی ، نتیش کمار کی جے ڈی یو، چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی ، جینت چودھری کی راشٹریہ لوک دل، جیتن رام مانجھی کی ہم جیسی بظاہر سیکولرازم دم بھرنے والی پارٹیوں کی بھرپور حمایت ملی ۔ا ن’ سیکولر ‘ پارٹیوں کو برسر اقتدار لانے میں مسلمانوں نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آخر آخر وقت میں یہ ’’سیکولر‘‘ پارٹیاں اس متنازعہ بل کو واپس لینے پر حکومت کو رضامند کر لیں گی ۔

لیکن ایسا نہیں ہوا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں مسلم مخالف اس بل کو پاس کرانے میں زبر دست ساتھ دیا ۔ بلکہ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے لیڈر اور مرکزی وزیر للن سنگھ تو مودی کی تعریف میں یہاں تک بول گئے کہ’’ حزب مخالف ایسا ماحول بنا رہا ہے جیسے وقف ترمیمی بل مسلمانوںکے خلاف ہو ، پی ایم مودی کا چہرہ پسند نہیں تو مت دیکھئے لیکن مسلمانوں کے کلیان کے لئے پی ایم مودی نے کوئی کام کیا ہے تو اس کی تعریف کیجئے ‘‘ یہ ’’امید ‘‘بھرا وقف ترمیمی بل ملک کے مسلمانوں کے لئے کس قدر مفادات سے بھرا اور ’’کلیان کاری‘‘ ہے ۔

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شیو سینا ( شندے گروپ)کے سنجے نیروپم نے مسلمانوں کو دھمکی تک  دے ڈالی کہ اگر اس وقف ترمیمی بل کے خلاف شاہین باغ جیسا احتجا ج دیکھنے کو ملا تو پھر وہ یہ نہ بھولیں کہ جلیان والا باغ۔2 بھی بن سکتا ہے ‘‘ یعنی اس ملک کے مسلمان ظلم اور ناانصافی بھرے فیصلہ کو خاموشی سے تسلیم کر لیں ،و رنہ احتجاج اور مظاہرہ کرنے والوں کا سینہ ہوگا اور حکومت کی بندوق سے آگ اگلتی گولیاں، لیکن شکر ہے ملک کے مسلمانوں نے سنجے نروپم جیسے دل بدلو نیتا کی دھمکی کو درکنار کرتے ہوئے آسام، بہار، جھارکھنڈ، کرناٹک، تمل ناڈو، گجرات، بنگال اور تلنگانہ وغیرہ ریاستوں کے کئی شہروں میں زبردست احتجاج اور مظاہرہ کیا۔

اس مظاہرہ میں وقف ترمیمی بل کی حمایت کرنے والے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے سربراہوں نتیش کمار ، چندرا بابو نائیڈو، چراغ پاسوان، جینت چودھری وغیرہ کے خلاف شدید غم و غصہ بھی دیکھا گیا۔  مظاہرین نے عوامی طور پر بل کی حمایت میں سامنے آنے والے مسلمانوں کے بائیکاٹ کا بھی پرزور مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پارٹیوں کے با ضمیر مسلمانوں کو وقت رہتے بطور احتجاجاً استعفیٰ دینے کی بھی گزارش کی ہے ۔ اس گزارش کا اثر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو ، جسے بس اب صرف چار ماہ بعد ہی اسمبلی انتخاب کا سامنا کرنا ہے ، اس پارٹی کے کچھ باضمیر مسلم رہنماوں نے پارٹی چھوڑنے کے اعلان در اعلان نے نتیش کمار کو کافی پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔

اس پریشانی کو کم کرنے کے لئے جے ڈی یو کے کچھ بے ضمیر اور بے غیرت مسلم چہروں کو سامنے لاکر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن انہیں زبردست ناکامی اور رسوائی ملی۔ مذکورہ پریس کانفرنس میں جے ڈی یو پارٹی کے اقلیتی سیل کی ترجمان انجم آرا نے اپنے بے مختصر خطاب میں وضاحت کی کہ جے ڈی یو نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو وقف ترمیمی بل میںشمولیت کے لئے جو پانچ تجاویز دئے تھے ان پانچوں تجاویز کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے قبول کر لیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انجم آرا مسلسل اپنے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہیں، لیکن جیسے ہی دو تین منٹ کی ان کی وضاحت ختم ہوئی پریس کی جانب سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا وقف ترمیمی بل میں دو ہندو ممبروں کی شمولیت کی بھی تجویز دی گئی تھی ۔ اس طرح کے سوال کے سامنے آتے ہی جے ڈی یو اقلیتی سیل کے تمام مسلم نما چہرے بڑی تیزی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کی حمایت کی پاداش میں نتیش کمار نے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ ملک کے تمام سیکولر لوگوں کی ہمدردی کھو کر اپنا سیاسی مستقبل تباہ کر لیا ہے ۔

یوں بھی اب وہ عمر کے آخری پڑاؤ کے ساتھ ہی سیاسی ڈھلان پر ہیں۔ اپنی اعصابی کمزوریوں اور دیگر امراض کی وجہ سے اب وہ کوئی بھی فیصلہ لینے کے لائق نہیں ہیں ۔ نتیش کمار کی حالت سے بی جے پی کو بڑے فائدے کی توقع ہی نہیں ہے بلکہ اسے یقین ہے کہ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا ہی وزیر اعلیٰ برسر اقتدار ہوگا ۔ لیکن وقف ترمیمی بل کے ہنگامہ نے راشٹریہ جنتا دل کے نوجوان لیڈر اور سابق ڈپٹی وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کی چار ماہ بعد ہونے والے اسمبلی الیکشن میں کامیابی کی امید جگا دی ہے اور انھوں نے یہ کہہ کر پوری ریاست کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں کا دل جیتنے کی کوشش کی کہ بہار میں ہماری حکومت بنے گی تو ہم کسی قیمت پر یہ قانون لاگو نہیں ہونے دیں گے اور اسے کوڑے دان میں پھینک دیں گے۔ تیجسوی یادو نے یہاں تک کہا کہ راشٹریہ جنتا دل ایسے غیر منصفانہ بل کے خلاف عدالت پہنچ چکی ہے اور ہماری لڑائی ایوان سے سڑکوں اور عدالت تک جاری رہے گی ۔

وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل ہے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے دی گئی دعوت افطار کا امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ اور بنگال کے ساتھ ساتھ دیگر کئی مسلم تنظیموں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا ۔ یہ بات نتیش کمار اور ان کی حکومت کو بہت بری لگی اور ایک گہری سازش رچتے ہوئے امارت شرعیہ جیسے مذہبی ادار ہ پر پولیس انتظامیہ کی مدد سے اچانک حملہ کرکے اس پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے تقدس اور وقار کو پامال کیا ۔ جس کی وجہ سے بھی نتیش کمار اور ان کی پارٹی سے بہار کے مسلمان بہت زیادہ خفا ہیں۔ کل ہی سابق آئی اے ایس افسر ، نتیش کمار کے سابق دوست اور معروف دانشور افضل امان اللہ نے اس کوشش پر اپنی سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس عمل کی  مذمت کی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ وقف ترمیمی بل لاکر اور اسے قانونی شکل دے کر ملک کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وقف کا سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے اور اس با ت میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وقف مذہبی معاملہ ہے اور اس میں حکومتی مداخلت نا قابل قبول ہے ۔ وقف ترمیمی بل کو مسلمانوں کے مفاد میں کہہ کر مسلمانوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں سنجے راوت نے طنزاََ کہا بھی کہ ایسا لگتاہے کہ جس بی جے پی میں ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ نہ ہو اور نہ وزیر ہو وہ بی جے پی مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کی بات ایسے کر رہی ہے جیسے وہ جناح سے بھی زیادہ ہمدرد بن گئی ہے ۔ شیو سینا کے سنجے راوت نے یہ کہہ کر حقیقت پر سے پردہ ہٹایا کہ وقف ترمیمی بل لاکر دراصل بدعنوانی لانے اور دو لاکھ کروڑ روپے کی وقف کی زمین بی جے پی اپنے قریبی صنعت کاروں کو دینے کی تیاری کر رہی ہے ۔اس لئے وقف کی املاک پر حکومت کی کسی طرح کی پابندی نہ صرف غیر آئینی ، غیر اسلامی اور غیر انسانی ہے بلکہ یہ مسلمانوں پر ذاتی حملہ ہے۔جس طرح مذکورہ ترمیم کرکے وقف بورڈ میں دو ہندوممبر کو شامل کئے جانے کی تجویز  رکھی گئی ہے ۔ کیا اسی طرز پر ملک کے مختلف مندروں اور مٹھوں میں کسی مسلم کو ممبر بنایا جا سکتا ہے ۔

مسلمانوں کے وقف کی املاک پر بہت پہلے سے بی جے پی کی گہری نظر تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میںدفاع اور ریلوے کے بعد ملک میں سب سے زیادہ املاک 9.4 لاکھ ایکڑ وقف کی ہے ۔ جس کی قیمت تقریباََ ایک لاکھ بیس ہزار کروڑ روپے ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وقف کی املاک کے انتظام و انصرام میں جس قدر خوف خدا ہونا چاہئے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے جو کام ہونا چاہئے وہ نہیں ہواہے ۔ اگر لوگ کہتے ہیں کہ اتنی املاک کے باوجود ملک کے مسلمان اتنی غربت میں کیوں جی رہے ہیں ، تو یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ سچر کمیٹی کی بات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقف کی زمین کو خرد برد کرنے میں بعض چیئرمین اور متولّی ملوث ہیں ۔ اگر ایسا انہیں ہوتا تو مودی کے دوست مکیش امبانی کا محل ’’ اینٹلیا‘‘  ممبئی کے ابراہیم خواجہ یتیم خانہ پر کوڑی کے مول خرید کر تعمیر نہیں ہوتا۔

یتیم خانہ کی اس زمین کو فروخت کرنے میںاس زمانے میں وقف کے وزیر رہے نواب ملک نے کی تھی ۔ لیکن کون سنتا ہے آہ و فغاں۔ ویسے اس کے خلاف دائر پی آئی ایل کی سماعت خصوصی بنچ کر رہی ہے ۔ عدالت کا ’فیصلہ‘ کیا ہوگا یہ معلوم ہے ۔ ایسے میں کیسے مان لی جائے کہ وقف جائیدادوں کو نہیں بیچا جائے گا جبکہ بی جے پی یا یوں کہیں کہ مودی اور شاہ جنہوں نے ایودھیا کے قریب ماجاج ماترا میں واقع گزشتہ 50سال سے فوج کو ٹریننگ اور فائرنگ رینج کی 13351 ایکڑ زمین گوتم اڈانی ، بابا رام دیو اور شری شری روی شنکر کے نام میں دیر نہیں کی ۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اب آر ایس ایس کی نظر کیتھولک چرچ کی زمین پر گئی ہے ۔ انگریزی روزنامہ ’ دی ٹیلی گراف ‘ کے مطابق آر ایس ایس کی میگزین ’آرگنائزر‘ کے و یب پورٹل پر شائع ایک مضمون میں بالواستہ مودی حکومت کی توجہ کیتھولک چرچ کی ملکیت تقریباً 7 کروڑ ہیکٹیئر زمین کی جانب مبذول کرائی گئی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب مسلمانوں کے وقف املاک پر غاصبانہ قبضہ کے بعد غاصبوں کی نظر کیتھولک چرچ کی املاک پر ہے ۔ ملک  میں چھتیس گڑھ سمیت 8 ریاستوں میں قاعدے قانون کو درکنار کر 10 لاکھ آدی واسیوں کی زمین چھین کر کاروباریوں کو دئے جانے کی خبر بھی ان دنوں سرخیوں میں ہے ۔

نئے وقف ترمیمی قانون سے بی جے پی کی حکومت کو اب اپنے برسر اقتدار رہنے اور اپنے صنعتکار دوستوں کو نوازنے کے لئے مسلمانوں کی مساجد، مدارس، مقبروں، درگاہوں، خانقاہوں، قبرستانوںپر قبضہ کئے جانے، ان کے تشخص کو ختم کئے جانے، ان کی مذہبی آزادی کو سلب کئے جانے،مسلمانوں کی معیشت کو تباہ و برباد کئے جانے کا ایک اچھا ہتھیار مل گیا ہے۔ اس نئے وقف قانون کے خلاف بڑھتے احتجاج اور مظاہروں کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے ، یہ دیکھنا ہوگا نیز سپریم کورٹ اس ظلم اور حق تلفی کے خلاف کیا فیصلہ دیتی ہے۔اس کا بھی انتظار رہے گا ۔

( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS