تاریخ کو نظرانداز کر کے کسی ملک کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، ایران کو بھی امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسی لیے نہیں سمجھ سکے کہ انہوں نے اپنے ملک کی طاقت کا خیال تو کیا، ایران کی تاریخ کو نظرانداز کر دیا۔ ٹرمپ نے یہ سوچا کہ سب کچھ امریکہ کے چاہنے سے ہوگا۔ امریکہ کے چاہنے سے ہی سب کچھ ہوتا تو عراق امریکہ کی مٹھی میں قید ہوجاتا، افغان جنگ ختم کرنے کے لیے امریکیوں کو انہیں طالبان سے امن مذاکرات کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا جن کے خلاف بڑے طمطراق سے امریکہ نے جنگ چھیڑی تھی۔ ٹرمپ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ سید روح اللہ موسوی خمینی المعروف امام خمینی نے محمد رضا پہلوی کو ہی راج گدی سے نہیں ہٹایا تھا، ایران سے 2,500 سال کی بادشاہت بھی ختم کر دی تھی۔ یہ کام ایسا نہیں تھا جو وہ عوام کی مرضی و منشا کے بغیر کر سکتے تھے۔ عراق سے جنگ میں بھی ایرانیوں نے یہی ثابت کیا تھا کہ وہ اپنے وقار، اپنے تشخص کو اپنی جان سے زیادہ اہم مانتے ہیں۔ ان ایرانیوں کو مرعوب کرنے کی کوششوں کا سیدھا مطلب انہیں حالات سے لڑنے کے لیے تیار کرنا تھا، انہیں ایک ایسے لیڈر کے انتخاب کے لیے تیار کرنا تھا جو مسئلوں کے حل کے لیے بات چیت تو پسند کرتا ہو مگر حالات کی تبدیلی کے لیے اس حد تک جھکنا پسند نہ کرتا ہو کہ ریڑھ کی ہڈی ہی ٹوٹ جائے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، بلکہ یہ احساس امریکی میڈیا کو بھی ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ’حد سے زیادہ دباؤ‘ بنانے کی پالیسی نے ایرانیوں کوابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کرنے پر مجبور کر دیا۔وہ 61.95 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے بعد دوسرے نمبر پر محسن رضائی رہے۔ وہ 11.79 فیصد ووٹ ہی حاصل کرسکے جبکہ یہی ابراہیم رئیسی 2017 کے صدارتی انتخاب میں 38.28 فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکے تھے اور حسن روحانی 57.14 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔ 2017 میں حسن روحانی سے ابراہیم رئیسی 18.86 فیصد ووٹ سے کیوں ہار گئے تھے اور 2021 میں وہ محسن رضائی سے 50.16 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کیوں کامیاب رہے؟ 4 سال میں ایران میں اتنی بڑی تبدیلی کیوں آگئی؟ ایران کے لوگوں کا مزاج کیوں بدل گیا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب جانے بغیر نہ ایران کے لوگوں کے رجحان کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور نہ ہی اس خطے اور عالمی سیاست کی متوقع تبدیلیوں کو، کیونکہ ایران وہ ملک نہیں ہے جس کا انحصار امریکہ یا کسی اور ملک پر ہو اور اس کا صدر ایران کے سربراہ کو متنبہ کرے کہ آپ کی حکومت ہماری فوج کی مدد کے بغیر دو ہفتے نہیں چل سکتی۔
ایرانیوں نے حسن روحانی کو بڑی امیدوں سے منتخب کیا تھا۔ ایٹمی پروگرام پر تنازع کے پرامن حل کے لیے امریکہ اور دیگر طاقتور ملکوں سے ایران کے معاہدے نے ایرانیوں کا حوصلہ بڑھایا تھا، روشن مستقبل کے لیے ان میں امید جگائی تھی، انہیں لگنے لگا تھا کہ حسن روحانی دوبارہ صدر بن جائیں گے تو حالات میں اور تبدیلی آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ٹرمپ نے امن معاہدے کو مسترد کر دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر کے امریکہ نے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ عالمی قوانین کے احترام کی بات ضرور کرتا ہے مگر خود اس کے لیے عالمی قوانین کے احترام کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، اس کے لیے اہم چیز بس اس کی اپنی انا، اپنا مفاد ہے۔ انا کی تسکین کے لیے ہی ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ جو بائیڈن نئے صدر بنے تو انہو ںنے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایران سے رشتہ استوار کرنے میں تیزی نہیں دکھائی۔ ادھر جنرل قاسم سلیمانی کے بعدجوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کو شہید کر دیا گیا اور بار بارکے کچوکے سے ایرانیوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ ایک اعتدال پسند صدر حسن روحانی کو چن کر انہوں نے غلطی کر دی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایران میں ایک ایسا صدر دیکھنا چاہتے ہیں جو ان ہی کی زبان میں ان سے بات کرے اور غالباً اسی لیے ایرانیوں نے ایک قدامت پسند جج ابراہیم رئیسی کو صدر ایران چنا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا رئیسی کی راہیں آسان ہیں؟ ایسا لگتا نہیں۔ پابندیوں کو ختم کیے بغیر رئیسی کے لیے ایران کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا مشکل ہوگااور اقتصادی حالت بہتر بنائے بغیر ایران میں بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوگی۔ یہ بات طے سی ہے کہ ایران کے حالات بہتر نہیں ہوئے تو اس کا جھکاؤ روس اور چین کی طرف اور زیادہ ہو جائے گا اور اس کا اشارہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بلاتاخیر ابراہیم رئیسی کو مبارکباد دے کر دے بھی دیا ہے۔مطلب یہ کہ اس خطے میں امریکہ کے لیے چنوتیاں بڑھ جائیں گی اور پھر امریکہ، ایران سے سیدھے ٹکراؤ کی پوزیشن میں آجائے تو حیرت نہیں ہوگی۔ ابراہیم رئیسی کے آنے والے 4 سال واقعی بے حد اہم ہوں گے۔
[email protected]
ایران کے نئے صدر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS