نئی مودی سرکار: امکانات اور اندیشے

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی

ہندوستان بنیادی طور پر ایک زراعت پیشہ ملک ہے جس کی زیادہ ترآبادی دیہی علاقوں پر مبنی ہے۔ کئی دہائیوں سے اسکولی مضامین میں قید یہ لائن اب شاید واپس سیاست کے مرکز میں لوٹ رہی ہے اوراس کے ساتھ ہی اقتصادی پالیسی پر بھی اس کا اثر فطری ہے۔ دوسری طرف بڑھتی آبادی پر لگام کسنے کی ناکام کوشش کے بعد اسی آبادی کو آبادی کا منافع بتانے کی نفسیاتی اڑچنیں بھی سامنے آچکی ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں روزگار کاانتظام سب سے بڑی ترجیح بن سکتی ہے۔ نریندرمودی کی تیسری مرکزی حکومت نے ذمہ داریاں تو سنبھالیں پر تیسری مدت کار کے آغاز سے پہلے ہی سودنوں کے ایجنڈے پر کام شروع ہوچکاتھا ، مگر حکومت کے اہم اتحادی ان ایجنڈوں کو کتنا پٹری پر رہنے دیں گے؟ یہاں حساب لگانا ضروری ہے کہ جی ڈی پی میں اضافہ کی رفتار آٹھ فیصد سے اوپر جانے کی خوشخبری آنے کے ٹھیک بعد کہیں اس پر بریک لگنے کا ڈر تو نہیں پیدا ہوگا۔ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ مدت کار کے مقابلے اس بار اتحادی پارٹیوں کی گنتی کم ہونے کے باوجود ان کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ جنتا دل( یونائٹڈ)کے سربراہ نتیش کمار اورتیلگو دیشم پارٹی کے چندرا بابو نائیڈو کی جانب سے اپنی اپنی ریاستوں کیلئے خصوصی درجہ کا مطالبہ تو فطری ہے ، مگر کیا مودی حکومت کے عام اقتصادی ایجنڈوں یا اقتصادی اصلاحات اور حکمراں محاذ پر اصلاح وترقی کی سیاست کیلئے ہی جانے جاتے ہیں۔ یعنی ان کی طرف سے اقتصادی محاذ پر کسی بڑی اڑچن کا خوف نہیں ہوناچاہیے۔

یاد رہے ، ہندوستان میں بڑی اقتصادی اصلاحات ایسی حکومتوں کے دورمیں ہوئی ہیں جب یا تو ملی جلی حکومتیں تھیں یا پھر خارجی حامیوں پر ٹکی حکومت ملک چلارہی تھی۔ سال 1991ء میں اقتصادی اصلاحات کی شروعات یا معیشت کو کھولنے کاکام ہی پی وی نرسمہاراؤ حکومت نے کیاتھا، جسے تعدادی قوت کے سبب ایک کمزورحکومت ماناجاتاتھا۔ اسی طرح دیوگوڑااورگجرال کا متحدہ محاذ حکومتوں نے انکم ٹیکس کی سلیب گھٹاکر تین لاکھ کرنے کاکام اور ٹی آراے آئی کے قیام جیسے بڑے فیصلے کئے۔ ٹیلی کمیونکیشن،پنشن سرکاری خسارے پر لگام کسنے کانظام ، بجلی اوربیمہ شعبہ کی متعدد بڑی اصلاحات اٹل بہاری باجپئی کی اس حکومت نے کئے جسے اپنے دم پر پوری اکثریت حاصل نہیں تھی۔ منموہن سنگھ نے بھی یوپی اے کے دورمیں مزیگا، فورٹ پروٹکشن ایکٹ ، لینڈایکوزیشن ایکٹ اورپیٹرولیم مصنوعات کو بازار کے حوالہ کرنے جیسے بڑے فیصلے کئے۔ ویسے مودی حکومت کی بھی پہلی مدت کار میں دوکام ایسے ہوئے جو متنازعہ تھے :نوٹ بندی اورجی ایس ٹی ۔ عوام اِن دونوں اقدام سے پریشان ہوئی اورآج تک عوام اس کا فائدہ نہیں اُٹھاسکے۔ نوٹ بندی سے کالا دھن ملک میں واپس ہونے والاتھا جوآج تک نہیں ہوااورجی ایس ٹی متوسط اورچھوٹے تاجروں کیلئے پریشان کن ثابت ہوا۔ جی ایس ٹی کا پورا حصہ ریاستوں کونہیں مل سکا۔ مودی حکومت کو اکثریت میں ہونے کے باوجود کسانوں کیلئے نقصاندہ زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا۔

یہ ضرور ہے کہ اتحادی حکومتیں ایسے کام نہیں کرپاتیں جن سے کسی پارٹی کے ناراض ہونے کا ڈر ہو، پر ایسے کام تیز ہوسکتے ہیں جن کا فائدہ صاف نظرآتاہو، یا جو اتحاد میں شامل سبھی یا زیادہ تر پارٹیوں کے ایجنڈے سے میل کھاتے ہوں۔ اب اگر آج کے حال کا جائزہ لیاجائے تو بنیادی ڈھانچے میں اصلاح، سڑک ، ریل،بجلی،پانی جیسی سہولتوں کو فروغ دینے اورزیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ،اس میں بھلا کون سی اڑچن آسکتی ہے۔ مزدوروں سے متعلق قوانین میں اصلاح یا تبدیلی پر تنازعہ کھڑا ہوسکتاہے ،لیکن اس کے بنابھی ہندوستان میں تیز ترقی ہورہی ہے۔ بظاہر اس وقت حالات موافق نظرآ رہے ہیں۔ معیشت میں اضافہ کی رفتار 8.2فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ریزرو بینک نے ہندوستانی حکومت کو امید سے دوگنا منافع دیاہے۔ جی ایس ٹی وصولی میں نیا ریکارڈ قائم ہورہاہے۔ انکم ٹیکس وکارپوریٹ ٹیکس کے محاذ پر کمائی بڑھتی جارہی ہے۔ ان مثبت خبروں کے بیچ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی کمزور حکومت جو بیساکھی پر چلنا شروع ہوئی ہے اور جو جنتادل (یونائٹڈ )اورتیلگو دیشم پارٹی کی مہربانیوں پر آگے بڑھ رہی ہے، کب تک چلے گی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ گویا کی اس کی زندگی کرامین کے انجکشن پر ہے۔ این ڈی اے میں داخلی تنازعہ شروع ہوچکاہے۔ اول تو ابھی تک نریندرمودی کو بی جے پی پارلیمانی پارٹی کا لیڈر نہیں منتخب کیاگیاہے۔ یہ چیز آئینی روایت کے خلاف ہے۔ دوسرے ، جے ڈی یو اورتیلگو دیشم کی مرضی کے خلاف وزارات کی تقسیم ہوئی ہے اوراتحادیوں کو ایک بھی اہم وزارت نہیں ملی ہے۔ تیسرے ، لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ یہ اتحادی پارٹیاں چاہ رہی تھیں۔ وزیراعظم نے اس مدعے پر بھی اپنی رضامندی نہیں ظاہر کی ہے۔ چوتھے، بی جے پی اور اُن اتحادیوں میں نظریاتی اختلافات میں ایک فرقہ پرستی کے ایجنڈے کوفروغ دے رہاہے تودوسرا سیکولر نظریہ کا حامی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ بی جے پی نے جن240سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے اُن میں ایک 106ارکان کا تعلق کانگریس چھوڑ کر آنے والے لیڈروں سے ہے جنہوں نے گرفتاری کے ڈر سے یا کسی اورلالچ میں کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ ظاہر ہے ان 106ممبران کا نظریہ بھی سیکولر ہے اوروہ کبھی بھی پالا بدل سکتے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ درحقیقت بی جے پی کو لوک سبھا میں 134نشستیں ہی حاصل ہوئی ہیں۔ مہاراشٹرا کے شندے اوراجیت پوار بھی مرکز میں وزارت کی تقسیم سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ بھی خبر ہے کہ این ڈے اے کے خاصے ارکان کی کانگریس ، شردپوار اورادھو ٹھاکرے سے بات چیت چل رہی ہے۔ آنے والے دنوںمیں مودی جی کو پارلیمان کے فلور ٹیسٹ کا بھی سامنا کرنا ہے، خصوصاً جب ان پر تمام طرح کی بدعنوانی اورای وی ایم کی بدولت بے ایمانی کرنے کا انکشاف ہوچکاہے۔

بہرحال نئی حکومت کے سامنے جو ترجیحات صاف نظرآرہی ہیں ، اُن میں اب عوام کو خوش کرنے والی اورانہیں نہ صرف حال بلکہ مستقبل کے تئیں بھی پرعزم بن کر فلاحی اسکیموں پر خرچ اورتوجہ بڑھانا سب سے اوپر ہوگا۔ جن چیزوں پر نااتفاقی کی گنجائش ہے، ان کو کنارہ رکھ کر اقتصادی ترقی اور روزگار کے محاذ پر بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ ظاہر ہے مفت اناج سے خوش ہونے کے بعد اب لوگ اس سے آگے کچھ چاہتے ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی ضرورت روزگار کی ہے، مگراس کے انتظام میں ابھی وقت لگے گا۔ ایسے میں لوگوں کو فوری طور پر خوش کرنے والے کچھ اعلان آنے والے بجٹ میں سنائی دیں تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ لمبی مدت کے بعد وہ وقت لوٹ آیاہے جب بجٹ میں وزیرخزانہ کو’ اچھی سیاست‘ اور’اچھی معاشیات‘کے درمیان توازن قائم کرناہوگا۔ اس لئے بجٹ تیار کرنا اوراقتصادی منصوبہ سنبھالنا تلوار کی دھار پر چلنے سے کم نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS