زین شمسی
امریکہ کے ٹوئن ٹاور انہدام کے زمانہ بعد ایک چھوٹا سا منظر ابھی ہم سب کو نوئیڈا میں نظر آیا جہاں کے ٹوئن ٹاورکو سیکنڈوں میں زمین دوز کر دیا گیا۔فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ کے ٹوئن ٹاور انہدام کو لوگوں نے خوف زدہ ہو کر دیکھا تھا مگر نوئیڈا کے ٹوئن ٹاورکی مسماری کو دلچسپی، خوشی اور انبساط کے ساتھ دیکھا گیا۔اسے دکھانے والے اینکرس نے جس جوش و خروش کے ساتھ اس منظرکو بیان کیا وہ مزید دلچسپی کا باعث تھا۔ اس حقیقت سے بالاتر کہ اس غیر قانونی عمارت کو بنانے اور منظوری دینے والے بدعنوان لوگوں کی شناخت ہونی چاہئے، ان پر مقدمہ درج کیا جانا چاہئے، انہیں سزا دی جانی چاہئے، تمام لوگوں کی دلچسپی اس بات میں زیادہ تھی کہ بلڈنگ کو کس طرح گرایا گیا، کیسی کیسی مشینیں ایجاد ہو گئی ہیں، ٹیکنالوجی نے زبردست ترقی کی ہے، موضوع بحث رہا اور اس واقعہ کو فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور واٹس ایپ پر تیزی سے وائرل کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور سب سے زیادہ لطف لوگوں نے بلڈنگ کی مسماری کے لائیو کوریج کو دیکھتے ہوئے لیا جیسے کوئی ایکشن فلم دیکھ رہے ہوں۔
لطف اندوزی کے اس بڑھتے رجحان میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی کے گھروں پر بلڈوزر چلا، گھر کے لوگ باہرحیران وپریشان ہیں۔ ان کے سامان ہر سو بکھرے پڑے ہیں اور بلڈوزر گھروں کو توڑنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کے موبائل کیمرے، چینلوں کے بڑے کیمرے اس بلڈوزر کی فلم بنارہے ہیں اور اس کے بعد لذت و خوشی کے ملے جلے الفاظ میں بلڈوزر کی تعریفیں ہو رہی ہیں اور مکین کے درد کا مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ کسی کی آنکھوں میں نہ اداسی ہے اور نہ زبان پر ہمدردی ہے۔ گویا یہ صرف ایک تماشہ ہے جو روزمرہ کا معمول بھی بن جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔ قومی اخباروں اور قومی چینلوں کے ذریعہ اس طرح کے واقعات کی پذیرائی آہستہ آہستہ سماج کو بے حس کررہی ہے اور اس کو روکنے کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہیں کر رہا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی کو پکڑ کر 10آدمی جان سے مار دیتے ہیں۔ واردات گھنٹوں چلتی رہتی ہے۔ بھیڑ میں سے ایک آدمی کیمرہ مین کا کام کرتا ہے وہ مارے جانے والے شخص کی ہر زاویہ سے تصویر اتارتا ہے۔ یہاں تک کہ ڈائیلاگ کو بھی فلم بند کرتا ہے۔ لاشیں ٹرپتی چھوڑ کر لوگ پورے شان سے وہاں سے نکل جاتے ہیں۔ اس کلپنگ کو پھر یو ٹیوب سمیت قومی چینلوں پر ازسر نو گھمایا جاتا ہے یعنی اس کے قتل کا منظر دن بھر کسی نہ کسی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ایسے دلدوز، بھیانک تصویروں کو دیکھ کر لوگوں کوایک انجانے لذت کا احساس ہوتا رہتا ہے۔کبھی کہیں قاتلوں کو پھول مالائیں پہنائی جا رہی ہیں۔ اس کی ستائش کے پل باندھے جا رہے ہیں اور سب لوگ پورے انہماک سے یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں، جیسے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ کوئی کسی ٹیلر کی دکان میں کسی کی گردن کاٹ دیتا ہے، کوئی کسان و مزدور کو اکیلے میں پکڑ کر زدو کوب کر رہا ہے۔ کہیں کسی غریب انسان کاٹھیلہ الٹ دیا جا رہا ہے۔ کوئی کسی کو نماز پڑھنے سے روک رہا ہے۔ گویا معاشرہ میں قاتلوں کی پذیرائی ایک عام سی بات ہوگئی۔
بے قصو رملزمین جیل میں بند ہیں اس پر کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی ہے اور قاتل تھوک کے حساب سے رہا کر دئے جا رہے ہیں۔یہاں تک کہ عصمت دری کے ملزمین نہیں بلکہ مجرمین کی رہائی پر جشن منایا جا رہا ہے۔سماج کریمنلائزیشن کی تعریف وتوسیع میں مصروف ہے۔ جرم کو گلیمر کارتبہ مل رہا ہے۔ لاشوں پر رونے کی جگہ ہنسا جا رہا ہے۔حد تو تب ہوئی جب کوروناکے عہد میں لاشوں پر ہی الزامات لگتے رہے۔ ان پیدل چلنے والے مسافروں کو ہی غریبی کا طعنہ دیا جانے لگا جن کے لئے کسی طرح کے کوئی انتظامات نہیں کئے گئے۔ یہ مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اب کسی کے دکھ پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کے دکھ پر لطف اندوزی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دوسروں کو پریشان کرنے حتیٰ کہ مار دئے جانے پر لذت محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے واقعات یا واردات پر افسوس کا اظہار نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ واردات کو ہی درست ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ کیسا سماج بن رہا ہے، جہاں کریمنلائزیشن کو تعریف کے زمرے میں رکھا جانے لگا ہے۔ پہلے ایک لاش کو دیکھ لینے سے نیند نہیں آتی اور آج متعدد لاشوں کو دیکھ کر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔سماج کے اس رجحان کو کیا نام دیا جائے۔ انگریزی میں اس رجحان کو Sodomasochisticکہتے ہیں اور اس کی اردو دیکھئے تو اسے ایذا پسندی کا رجحان کہا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کا وہ مرحلہ ہے جس میں دوسروں کی تکلیف سے تلذذ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ادب میں اس طرح کے احساسات پر کئی کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ اس کہانی میں ایک کہانی کا نام’لذت سنگ‘ ہے۔ ایک بہترین کہانی ’انوکھی مسکراہٹ‘ بھی ہے۔ جس میں کسی کے مرنے پر اس لئے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس سے دفنانے والے یعنی گورکن کا گھر چلتا ہے۔گورکن ایک پیشہ ہے اور اس کا پیشہ تبھی بڑھے گا جب لوگ مریں گے۔یہ ویسا ہی ہے جیسے لاش کھانا حرام ہے مگر گدھ کی وہی غذا ہے اس کے لئے وہ حرام نہیں ہے۔تو کاروبار کے اس دور میں جس طرح ہنسی بھی کاروبار میں پھنسی ہے، اسی طرح ’ایذا پسندی‘ بھی کاروبار کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگوں کو گالی دے دینا، زدو کوب کرنا، داڑھی نوچ لینا، طمانچہ مار دینا یہاں تک کہ قتل کر دینا اب ایک تماشہ ہے، یہ جرم نہیں ہے۔جرم اس لئے نہیں ہے کہ جرم کرنے والا مجرم ہوتا ہے، مگر جرم ثابت ہی نہ ہو تو پھر سزا کیسی؟
کہتے ہیں کہ جذبات، احساسات، ضمیر، انسانیت زندگی کا مرکب ہے۔ یہ نہیں تو انسان نہیں۔ آج کی دنیا میں ان تمام چیزوں کا کوئی گزر نہیں ہے۔ یہ دور قحط الرجال کا ہے۔ یہاں آدمی تو ہے مگر آدمیت نہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ایک نیند ہے جو رات بھر نہیں آتی
ایک ضمیر ہے جو دن بھر سویا رہتا ہے
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]