سالم فاروق ندوی
حال ہی میں مختلف مقامات پر کئی بڑے فسادات ہوچکے ہیں، جن میں فریقین کو بڑی حد تک جانی و مالی نقصان ہوا۔ ہندوستان میں اس طرح کے فسادات اب عام ہوچلے ہیں، سیاسی طور پر بھی حالات اس طرح بنادئے گئے ہیں کہ اب باقاعدہ پلاننگ کے تحت کسی خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ حال ہی میں ہونے والے فسادات میں یہ دیکھنے کو ملا، کہ انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کو خصوصی طور پر ٹارگیٹ کیا گیا۔ پولیس کی طرف سے کارروائی یکطرفہ مسلمانوں کے حصہ میں آئی، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑی تعداد میں مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے فسادات کا محرک عموماً کچھ خارجی شر پسند گروہ ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ماحول گرم ہوجاتا ہے، پھر اس کے نتیجہ میں داخلی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے، علاقہ کا آپسی اتحاد متاثر ہوتا ہے۔ فسادات کو بھڑکانے والے تو رفو چکر ہو جاتے ہیں، مگر وہ لوگ جو برسہا برس سے ایک ہی بستی میں، ایک ساتھ میل ملاپ کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت شروع ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے پر سے اعتماد ختم ہونے لگتا ہے، پھر دونوں فریق ایک دوسرے کا وحشت کھانے لگتے ہیں۔
چونکہ ان سب ماحول کو خراب کرنے والے خارجی لوگ یا شر پسند عناصر ہوتے ہیں، اس لیے اس سلسلہ میں بستی میں رہنے والے تمام لوگوں کو آپس میں بیٹھ کر بات چیت اور معاہدات وغیرہ کرنے چاہیئے، جس میں اس طرح کی قرارداد پاس کی جائیںکہ اپنی بستی کے اتحاد کو کسی خارجی عنصر کی وجہ سے ہم متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کیونکہ اس کا نقصان ہمیشہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اس علاقہ کے باشندے ہوتے ہیں۔
مذہب کے نام پر جو دنیا میں امن و صلح کا پیغام ہونا چاہیے، وہ نہیں ہورہا ہے بلکہ جنگ و جدل کے نعرے ہمیشہ بلند ہوتے رہے ہیں۔ بعثت محمدیؐ کے وقت بھی فضا ان نعروں سے گونجی تھی، مگر رسول اللہ ؐ نے اپنی حکمت عملی سے پر امن ماحول بنانے کا کام شروع کیا۔ہندوستان کے نفرت بھرے ماحول میں بھی اس سلسلہ میں مسلمانوں کو خصوصاً پہل کرنی چاہیئے ، پیغمبر امن کی سیرت طیبہ میں اس پہلو سے ایک مضبوط قدم اور خوبصورت پہل ملتی ہے، ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو بھی ایک خارجی خطرہ قریش کی جانب سے درپیش تھا، جس کے نتیجہ میں اندیشہ تھا کہ کہیں اس سے متاثر ہوکر مدینہ منورہ کی دوسری آبادیاں مسلمانوں کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہوں اور دوسری طاقتیں آپس میں متحد نہ ہوں، اس لیے اللہ کے نبی ؐ نے وہاں کی دوسری آبادیوں کے ساتھ معاہدہ کی پیش کش کی اور کچھ معتدل و مساواتی قرار دادیں تجویز فرماکر دوسرے قبائل سے معاہدہ لیا اور ان سے علیحدہ علیحدہ دستخط کرائے۔تاریخ نے اسی معاہدہ کو ’’میثاق مدینہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، میثاق مدینہ… مذہبی رواداری، داخلی امن و سلامتی اور باہمی ترقی و خوشحالی کا آئینہ دار ثابت ہوا، یہ میثاق، مدینہ منورہ میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے اپنی معاشرتی زندگی میں مشترکہ مصالح، امن و سکون، پیار و محبت، ہمدردی و غمخواری کے ساتھ ساتھ اتفاق و اتحاد پر مبنی تھا۔ ایک بستی میں سب لوگ پیار و امن کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر مکمل آزادی سے عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں اور ضرورت پڑنے پر سب ایک دوسرے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوجائیں، داخلی امور میں سب قبائل ایک ساتھ اس قدر متحد ہوں کہ خارجی طاقتوں کا ایک جٹ ہوکر مقابلہ کریں اور شر پسند عناصر کو اپنے درمیان گھسنے نہ دیں۔ میثاق مدینہ نے دفاعی معاہدہ ہونے کے ناطے ریاست مدینہ کے لیے ایک حفاظتی حصار کا کام کیا۔ چونکہ یہ معاہدہ رسول اللہ کی جانب سے تھا، اس لیے اس کے مثبت نتائج بھی رسول اللہؐ کے حصے میں آئے۔ اس میثاق میں جن باتوں کو لے کر آپ ؐ نے یہود سے معاہدہ کیا تھا ان میں سب سے اہم تھا کہ :
’’مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی اور ان کے مذہبی امور سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ بیرونی حملے کے وقت دونوں فریق متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔ یہود اور مسلمان باہم دوستانہ تعلق رکھیں گے۔ ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔ مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو بھی قاتل کو قصاصا قتل کی سزا دی جائے گی۔ تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ مظلوم کی حمایت کی جائے گی۔یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ فریقین میں سے کسی ایک پر جارحانہ حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔ ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ شہر مدینہ میں ایک کا دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہوگا‘‘۔ ان باتوں کو اگر غور سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تمام نکات عدل و انصاف اور آپسی اتحاد پر مبنی ہیں، ہندوستانی ماحول میں اگر ان کو اپلائی کیا جائے تو اس کے بیحد مثبت نتائج سامنے آئیں گے،ایک بات یہ بھی قابل غور رہے کہ اس طرح کے معاہدات میں نہ صرف بستی کے عام لوگوں کو شامل رکھا جائے، بلکہ علاقائی سیاسی تنظیمیں، با اثر مذہبی افراد، پولیس انتظامیہ، خاندان و قبائل کے بڑے بزرگ وسر کردہ لوگ اور متحرک نوجوانوں کو بھی حصہ بنایا جائے۔ ایسے لوگوں کو امتیازی طور پر شامل رکھیں، جن کی جانب سے کسی بھی خطرے کا اندیشہ ہو اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ سب اس معاہدے کے پابند ہوں گے۔ سب ایک ساتھ مل کر ظلم و زیادتی، عداوت و دشمنی، ناانصافی، غیر جانبداری، منافرت، عصبیت، جہالت و ناخواندگی کے خلاف صف آراء ہوں گے۔ انسانیت کی تعظیم، سماجی ہم آہنگی، اشتراک عمل، ملک عزیز کی سیاسی و معاشی سالمیت، حقوق انسانی کا احترام، مرد و خواتین کے حقوق اور نوجوانوں کے لیے ایک پر امن معاشرے کی تشکیل،قومی و ملی ترقی میں حصہ داری کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھیں گے اور ایک دوسرے کے مذہبی امور میں مداخلت کیے بغیر مشترکہ اقدار و امور پر ایک قوم اور ایک ملت کی عملی تصویر بن جائیں گے۔ معاشی و معاشرتی ترقی کے ساتھ، ملک کے مشترکہ مصالح اور خوش حالی کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اس طرح انتہا پسند منفی قوتیں بین المذاہب ہم آہنگی کے ماحول کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔ آپسی صلح و آشتی کے علاوہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے متعلق برادران وطن میں جو غلط فہمیاں ہیں،ان کا بھی ازالہ ہوگا ، رائے عامہ جو ماحول کے فساد و صلاح میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے، وہ ہموار ہوگی، علاقائی محبت کو فروغ ہوگا ، لوگ ایک دوسرے کے دشمن بننے کے بجائے آپسی پیار و محبت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں گے،جو ہمارے ملک ہندوستان کی خوبصورتی اور سب سے بڑی پہچان ہے۔
’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘
نفرت کے ماحول میں محبت کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS