ڈاکٹر جاوید عالم خان
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد تقریباً کل آبادی کا15فیصد ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شمالی ہندوستان میں آباد ہے جو تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے۔ گزشتہ 45 سالوں کے دوران مختلف کمیشن اور کمیٹیوں(گوپال سنگھ کمیشن، سچر کمیٹی، رنگ ناتھ مشرا کمیشن) کے ذریعے تیار کی گئی دستاویز اور رپورٹوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان سماجی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے ملک کی دوسری برادریوں کے مقابلے پچھڑتے جارہے ہیں۔ سرکاری روزگار میں مسلمانوں کی شمولیت کا تناسب ہر ایک شعبے میں گھٹتاجارہا ہے۔ عدلیہ، دفاع، پولیس اور سول انتظامیہ میں مسلمانوں کی شمولیت گزشتہ10سالوں میں مزید گھٹی ہے، اسی طرح سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بتدریج گھٹتی جارہی ہے۔ جہاں تک پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوں کا معاملہ ہے تو مسلمانوں کی نمائندگی بیرون ملک والی کمپنیوں (ملٹی نیشنل) میں کچھ حد تک ہے۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذِکر ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے عام طورسے سرکاری شعبوں میں خالی پوسٹ نہیں بھری جارہی ہیں۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کو اگر غور سے دیکھا جائے تو مسلمان مختلف سیاسی پارٹیوں کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے اپنی آبادی کے تناسب کے حساب سے سیاست میں نمائندگی حاصل نہیں کرپا رہے ہیں، اسی طرح سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی جو فرقہ وارانہ ماحول ہے، اس کی وجہ سے وہاں کام کرنے اور ان کے ذریعہ پھیلا ئے جارہے جھوٹے پروپیگنڈہ کو چیلنج کرنا بھی مسلمانوں کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ مزید اسلاموفوبیا، بلڈوزر کی سیاست، ماب لنچنگ، وقف بل، مذہب کی تبدیلی، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور مذہبی نفرت جیسے مسائل کو چیلنج کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ حکومتی سطح پر آئے دن مختلف بل، قانون اور پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کرنا کچھ منتخب صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کا مستقل مشغلہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مرکزی حکومت کے متعصبانہ رویے کو اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کے موجودہ بیان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور بی جے پی کے دور حکومت سے پہلے مسلم اقلیتی امور بن گئی تھی جس کو بی جے پی نے اپنے دور حکومت میں اقلیتی امور کی وزارت بنایا ہے جہاں پر تمام اقلیتوں کو برابری کا درجہ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کے متعلق تمام اداروں میں اب غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی جارہی ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کی تعمیر و ترقی کیلئے کن سرکاری اداروں سے مدد مانگی جائے اور کس طرح سے مسلمانوں کی شمولیت عوامی اداروں میں بڑھائی جائے۔ اس وقت ملک کے سیاسی اور حکومتی رویے سے عام مسلمان مایوسی کا شکار ہیں، ایسی صورتحال میں ہماری ملی اور سماجی تنظیموں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کے اندر کمیونٹی کی سطح پر لیڈرشپ کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کمیونٹی لیڈرشپ کیلئے کس طرح کی صلاحیت پیدا کی جانی چاہیے اور وہ عملی میدان میں کیا کریں گے۔ نوجوانوں میں کمیونٹی لیڈرشپ کی صلاحیت کو پیدا کرنے کیلئے سماجی اور ملی تنظیموں کو اسکول، کالج اور مدارس کے طلباوطالبات کیلئے لیڈرشپ پروگرام منعقد کیے جانے چاہئیں جن کے تحت ملک کی موجودہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورتحال اور اس سے متعلق چیلنجز سے آگاہ کیا جائے اور اس کے حل سے متعلق منصوبے پر بات کی جائے۔ ان نوجوانوں کو انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی افادیت و اس سے متعلق چیلنجز کے بارے میں جانکاری دی جانی ضروری ہے۔ اسی طرح سے ریسرچ، ٹریننگ اور ایڈووکیسی کی صلاحیت پیدا کرنا ملک کے نوجوانوں کیلئے بے حد ضروری ہے۔ عام طورسے ہمارے سماج میں لیڈرشپ یا قائدانہ صلاحیت کے بارے میں جب بات کی جاتی ہے تو اس کو ہم صرف سیاسی قیادت ہی سمجھتے ہیں اور الیکشن کے دوران مختلف پارٹیوں سے انتخاب لڑنا ہی ہمارے سماج میں قیادت سمجھا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت انتخابات کی سیاست کا دار و مدار پیسہ، فرقہ وارانہ عمل اور جھوٹے پروپیگنڈہ پر منحصر ہے اور یہ سیاست عام آدمی اور خاص طور سے مسلمانوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
لہٰذا اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو غیر سیاسی لیڈرشپ کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، اس کو ہم کمیونٹی لیڈر، سوشل ورکر اور کمیونٹی والنٹیئرز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے اندر مختلف طرح کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے کچھ اہم موضوعات جیسے معلومات کو جاننے کا حق(Right To Information Act)، مفاد عامہ کیلئے عدالتوں میں عرضی داخل کرنا(Public Interest Letigation)، سوشل آڈٹ، حکومت کے تمام اداروں، کمیٹیوں وکمیشنز کے بارے میں تمام معلومات، حکومت کے تمام ترقیاتی پروگراموں سے واقفیت، حکومت کے بجٹ کی ٹریکنگ، پروجیکٹ مینجمنٹ، فنانشیل مینجمنٹ، ادارہ سازی، انتظامی امور کی صلاحیت، حکومت کی ذمہ داریوں سے متعلق جوابدہی اور حکومت کے کام کاج میں شفافیت شامل ہیں۔ موجودہ وقت میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں زیادہ توجہ میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے موضوعات پر دی جارہی ہے کیونکہ یہ پروفیشنل کورسز مانے جاتے ہیں اور ان کورسز کے ذریعے معاشی اور روزگار کے میدان میں مواقع جلدی حاصل کیے جاسکتے ہیں، وہیں سماجی علوم میں والدین کی دلچسپی زیادہ نہیں ہے، اس لیے اقتصادیات، سیاسیات(Political Science)، سماجیات(Sociology)، نفسیات اور جغرافیہ جیسے موضوعات پر کم دلچسپی لی جارہی ہے جبکہ ان موضوعات کا علم سیاسی اور غیر سیاسی لیڈرشپ کیلئے نہایت ضروری ہے۔ ان موضوعات کی اہمیت اور اس سے جڑے ہوئے مواقع کو بتانے کے لیے اسکولوں میں کریئر گائیڈنس اور کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ان کاموں کو انجام دینے کیلئے ہماری ملی اور سماجی تنظیموں کو کمیونٹی لیڈرز اور والنٹیئرز کی شکل میں افراد سازی کرنی چاہیے۔ وارڈ، گرام پنچایت، بلاک پنچایت، ضلع پنچایت، ضلع انتظامیہ، صوبائی اور مرکزی حکومت کی سطح پر کمیونٹی لیڈرز سرکاری اداروں اور عوام کے درمیان ایک لنک کے طور پر کام کرسکتے ہیں، اسی طرح سے کمیونٹی لیڈر کا کیڈر، سیاسی نمائندوں اور عدلیہ کے ذریعہ ہونے والے کاموں میں مدد کرسکتا ہے اور انتظامیہ،پالیسی،قانون ساز اداروں اور میڈیا کے ساتھ ایڈووکیسی بھی کی جاسکتی ہے۔
دلت اور قبائلی کمیونٹی کے اندر بھی کئی سالوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ ان کے یہاں بھی کمیونٹی لیڈرشپ کو بڑھانے کی کافی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک کے تمام قبائلی گروہوں کے اندر لیڈرشپ صلاحیت کو پیدا کرنے کیلئے ٹاٹا اسٹیل فاؤنڈیشن جمشیدپور کے ذریعہ ہرسال ٹرائبل لیڈرشپ پروگرام کا انعقاد کیا جاتاہے۔ ان پروگراموں میں مسلم قبائلیوں کو بھی شامل کیا جاتاہے۔10دن کیلئے منعقد ہونے والے اس لیڈرشپ پروگرام میں پنچایت ممبر، کمیونٹی ورکرس، طلباوطالبات اور دوسرے فیلڈ کے لوگوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس ٹریننگ میں آئین، بجٹ، سیاسی اور اقتصادی حالات کے بارے میں پوری جانکاری دی جاتی ہے۔ اسی طرح کا ایک اقدام دلت کمیونٹی کیلئے انڈین انسٹیٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز کے ذریعے کیا جاتا ہے جو ہر سال مختلف یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز کو مختلف موضوعات پر ٹریننگ مہیا کراتے ہیں، اس ٹریننگ پروگرام کو سمر اسکول کا نام دیا گیا ہے، اس میں دلت کمیونٹی کے علاوہ سماج کے دوسرے طبقوں کو بھی شامل کیا جاتاہے۔ اس وقت مسلمانوں کی کئی سماجی تنظیموں نے بھی اس میدان میں اپنا کام شروع کیا ہے۔
متذکرہ لیڈرشپ پروگرام کے تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہماری ملی اور سماجی تنظیموں کو بھی اس طرح کے پروگرام مستقل طورپر منعقد کرنے چاہئیں جن میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے طبقے کے لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ مزید مسلم خواتین کی شمولیت بھی ایسے پروگراموں میں نہایت ضروری ہے۔ لیڈرشپ پروگرام یا لیڈرشپ اسکول چلانے کیلئے ایک مضبوط منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے اور وہ منصوبہ بندی 15 سال، 5 سال اور 1 سال کیلئے بالترتیب کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے نوجوانوں کی صلاحیت اور مسلم کمیونٹی کی ضرورتوں کو پہچاننے کیلئے بیس لائن سروے منعقد کیے جانے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح سے ان پروگراموں کے نفاذ اور مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہے جس سے لیڈرشپ پروگرام کی افادیت کا جائزہ لیا جاسکے۔ اس کام کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے مستقل طورپر اینڈ لائن سروے بھی منعقد کیا جانا چاہیے۔ لیڈرشپ پروگرام کے ذریعے مسلم کمیونٹی کیلئے انسانی وسائل کا ایک بڑا کیڈر بنایا جاسکتا ہے جس کے ذریعے وہ کمیونٹی ڈیولپمنٹ کا کام کرسکیں گے اورمسلمانوں کے ساتھ موجودہ درپیش ملکی اور ملی مسائل کیلئے ایک بہتر حل بھی پیش کرسکیں گے جس سے مسلمانوں کی ان کے موجودہ مسائل کے بارے میں رہنمائی کی جاسکے گی۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]