ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
فکری پاکیزگی اور توسع ایسا ہتھیار ہے جس سے سماج میں عدل و انصاف کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ جمہوری نظام کو تقویت اور عوامی تحریک کو فروغ ملتا ہے۔ ہر ایک کو جائز اور مناسب بات کہنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب معاشرے میں یہ رویہ عام ہوجاتا ہے تو علمی، تحقیقی تنقیدی رویوں میں مناسب تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور معاشرتی تنوع یا مشترکہ اقدار کی اہمیت و افادیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ گویا ایسا معاشرہ ہر اعتبار سے قابل فخر ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج علمی و فکری حلقے میں جو رویہ اور رجحان پیدا ہورہا ہے اس میں تنگی ہے۔ اپنائیت اور جانب داری ہے۔ فکری و نظریاتی پستی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور تہذیبی تنزلی ہے۔ یہی نہیں بلکہ فکرو نظر میں بظاہر توسع اور تقریر و تحریر میں عدل و انصاف کے مسجع اور مقفع جملے نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر اس طرح کی مخلوق کا ہر اس کردار ، رویہ اور فعل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جس سے معاشرتی اکائیوں میں ترقی یا کسی غریب کا کوئی بھلا ہوسکے۔ ہم نے صرف سنا ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ میں پڑھا بھی ہے کہ جن معاشروں میں عدل و انصاف کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے وہ بہت دیر تک اپنے آپ کو محفوظ و مامون نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ظلم کسی فرد واحد پر ہو یا کسی قوم اور معاشرے پر ہو بالفاظ دیگر ظلم اور زیادتی کی نوعیت انفرادی ہو یا اجتماعی اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے انصاف کا قیام اور استحکام، معاشرتی ترقی کے لیے لازمی ہے۔ امن و امان اور اخوت کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر اس کردار سے نفرت کریں جس سے معاشرے میں کسی بھی طرح کی بد امنی کے پھیلنے کا خطرہ ہو۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ قوموں کا وجود اور تہذیبیں اپنی آب و تاب اور شان کے ساتھ اسی وقت باقی رہتی ہیں جب کہ ان کے اندر توازن اور اعتدال پایا جائے۔ اسی طرح کسی بھی قوم کی سیاسی قوت اور اقتدار کے با اثر ہونے کے لیے لازمی ہے کہ ارباب اقتدار انصاف اور عوامی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ قوت اور اقتدار میں ملوث معاشرے عموماً آپے سے باہر ہو جاتے ہیں لیکن جو ایسا کرتے ہیں وہ نہ صرف اپنی قیادت و سیادت کو نابود ہوتے ہوئے اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کا وجود تک ختم ہوجاتا ہے۔ ماضی کی بہت ساری داستانیں ملیں گی جن میں یہ ملتا ہے کہ ظلم و جبر اور انتشار و افتراق کرنے یا معاشرتی تنوع اور سماجی تعدد کو ٹھیس پہنچانے والی سیادتوں کا وجود ملیا میٹ ہوچکا ہے۔ آج کے عالمی منظرنامے پر جو نظریہ اور فکر تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے وہ ہے جمہوری نظام اور سیکولر اقدار کا فروغ۔ اس نظام کو ان معاشروں میں بھی پسند کیا جارہاہے جن میں ملوکیت ہا بادشاہت کا چلن ہے۔ اس کی مثال یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ بعض تحقیقی رپورٹوں اور تجزیوں کے مطابق عالم عرب یعنی مشرق وسطی میں تبدیلی کی آہٹ یا مشترکہ ثقافت کی عظمت کو قبول کرنا جیسے اعمال و کردار صاف صاف بتاتے ہیں کہ جمہوریت آمریت اور موروثیت کے مد مقابل زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ جمہوریت اور سیکولر نظام واقعی اپنی تمام جہات اور نوعیتوں سے مکمل ہو ، جمہوریت کے نام پر کسی بھی طرح کی ڈنڈی نہ ماری جائے۔ یا سیکولر روایتوں کے تقدس کو مجروح نہ کیا جائے۔ اب ذرا اس تناظر میں ہندوستان کے منظر نامے پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ جس ملک میں جمہوریت اور سیکولر روایتوں کا چلن عام ہو، آج اسی معاشرے میں یک رنگی اور یکسانیت کی بات ہو رہی ہے ، تعجب خیز بات یہ ہے کہ صرف بات ہی نہیں ہورہی ہے بلکہ باقاعدہ مخصوص ذہنیت کے طبقے جمہوری نظام کو پامال کرنے کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔ اسی طرح بعض نام نہاد علمی حلقوں میں بھی جمہوری روایتوں کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے روندا جاتا ہے اور پھر اس خیال کے لوگ اپنے عمل پر خوش بھی ہوتے ہیں۔ قول و فعل اور عمل و کردار کا یہ تضاد یقیناً تنزلی کی طرف لے جاتا ہے۔ تعدد پسند معاشروں میں یکجہتی پیدا کرنا اور عوام کے حقوق کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے یہ وہی معاشرے سمجھ سکتے ہیں جن کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ ہو، نیزفکرو نظر میں توسع ہو۔ ہمارے یہاں یہ بات بڑی شدت کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے انصاف اور عدل کا قیام ہو۔ علم و ادب اور تحقیق و تفتیش کی راہ ہموار ہو۔ ناداروں اور غریبوں کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سماج میں کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہ کیا جائے لیکن ہر ایک کو سوچنا ہوگا اور اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ واقعی آج یہ سب روایتیں اور معاشرتی ترقی کے تمام راستے ہر ایک پر یکساں کھلے ہوئے ہیں ؟ جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے اداروں ، جماعتوں اور تنظیموں سے لے کر بڑے بڑے اداروں کے سرپرستوں اور ذمے داروں کی تقریباً باتیں یکساں ہیں۔ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اپنی خود ساختہ مصلحتیں زیادہ محبوب ہیں اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے سسٹم میں غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر مزید امیر بنتا جارہاہے ہے۔ اس کشمکش میں نہ تو متوسط طبقے کو کچھ ہاتھ لگ رہا ہے اور نہ ہی کسی مفلوک الحال کو کچھ مل پارہا ہے۔ اس لیے بھی معاشرے معاشی اور فکری پستی پائی جاتی ہے۔ یہ ہمارے سماج اور نظام کی حقیقت ہے اس کو ہر ایک کو سمجھنا ہوگا اور طے کرنا ہوگا کہ کیا ان حالات میں ایک عام آدمی کچھ حاصل کرسکتا ہے ؟ اس کے علاوہ ایک اور تصور ہمارے معاشرے میں جاگزیں ہوگیا ہے کہ اسی کو آگے بڑھا یا یا نوازا جاتا ہے کہ جس کو خلافت ، ولایت یا کوئی اور عہدہ وراثت میں ملا ہو۔ اس کے آباؤ اجداد میں کوئی کسی منصب پر فائز رہا ہو ،خواہ وہ دینی اور عصری اداروں کا معاملہ ہو ، جمعیتوں اور تنظیموں کا مسئلہ ہو یا پھر سیاسی و سماجی اقتدار کا معاملہ ہو۔ آج جو لوگ کسی شہرت و مقبولیت کے درجے کو پہنچے ہیں وہ محض اس وراثت کے توسل سے آگے بڑھے ہیں جو انہیں ان کے آباء سے ملی ہے۔ اس لیے اس تنگ ماحول اور پیچیدہ حالات میں معاشرتی ترقی کا کامل تصور تو یقینی طور پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ گیتئی ہستی میں عدل و انصاف اور متوازن افکار و نظریات کا بول بالا ہو تو پھر ضروری ہے کہ ہمیں زمین سے جڑ کر مسائل کو دیکھنا ہوگا اور جو رکاوٹیں پیش آرہی ہوں ان کا مل کر تدارک کرنا ہوگا۔ دنیا میں امن و امان ،باہم اعتماد و اعتبار کو بحال رکھنے کے لیے چیزوں کو ترتیب سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ نہ خاندانی عصبیت آڑے آئے اور نہ کوئی اور وجہ سد راہ بنے ،اگر ہم اس طرح سے معاشرے میں اپنا کردار نبھائیں گے تو پھر واقعی معاشرے میں یکجہتی اور قومی تفاہم پیدا ہوسکے گا نیز سماجی سطح پر بھی انصاف و برابری کا تصور پایا جانے لگے گا۔qwr