نئے اقوام متحدہ کی ضرورت

0

پنکج چترویدی

اسرائیل پر کیے گئے حماس کے حملے اور اس کے بعد غزہ پٹی میں پیدا ہوئے بڑے انسانی بحران کے درمیان عالمی نگراں اور ثالثی کرنے والا ادارہ اقوام متحدہ یعنی یو این مایوس کن بیانات دیتا رہا اور دونوں طرف سے بے قصور لوگ مارے جاتے رہے۔ بحران کے عارضی حل کے لیے قطر جیسے ملک کو ہی مداخلت کرنی پڑی۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، بارود کے مسلسل استعمال سے ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ اس سے قبل کچھ ایسے ہی حالات ہم نے افغانستان میں دیکھے تھے۔ اقوام متحدہ بیانات دیتا رہتا ہے اور طاقتور ممالک من مانی کرتے رہتے ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بدنام زمانہ دہشت گردوں کے خلاف جب جب بھارت نے بات کی، چین جیسے ملک نے مناسب کارروائی کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ دنیا کے سامنے آج سب سے بڑا بحران موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا ہے۔ اس ایشو پر بھی اقوام متحدہ میں ترقی یافتہ ممالک اپنی مرضی چلاتے ہیں۔ ایسے میں یہ تو نظر آنے لگا ہے کہ اقوام متحدہ کی موجودہ شکل عالمی مسائل کو حل کرنے کی اہل نہیں ہے۔
عالم کاری کے عمل نے جہاں اس طرح کے مسئلوں میں اضافہ کیا ہے جو ایک دوسرے پر منحصرہیں وہیں اس نے غریبی اور امیری کے درمیان خلیج بڑھا دی ہے۔ بازار دن بہ دن گلوبلائزڈ ہوتا جا رہا ہے جبکہ بازار کے جمہوری، غیرجانبدارانہ اور مؤثر کام کاج کی نگرانی کے لیے ذمہ دار سیاسی اداروں کا کردار اسی تناسب میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی اقتصادی ادارے بازار اور بڑی کمپنیوں کے حق میں ایسی پالیسیوں کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی، جنگ، بدامنی، دہشت گردی، ماحولیاتی مسائل، بھوک، پناہ گزینوں کے مسائل میں جہاں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے وہیں ان کے حل کے لیے تقریباً 78 سال قبل بنائے گئے بین الاقوامی ادارے یا تو بے بس ہیں یا پھر بے اثر۔ امن و سلامتی جیسے ایشوز پر بین الاقوامی اداروں کے کمزور ہونے اور حاشیے پر آجانے کی وجہ سے ہی افغانستان، عراق، لیبیا، شام سمیت درجنوں ممالک میں مستقل بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی تنظیمیں انسانیت کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کچھ ایسی خامیاں محسوس کی گئیںجن کی وجہ سے یہ ادارے موجودہ دنیا کے زمینی مسائل کو حل کرنے میں لاتعلق ہوگئے ہیں، لہٰذا بین الاقوامی اداروں میں ایسی اصلاحات ناگزیر ہو گئی ہیں جن سے دنیا کو ایک بار پھر منصفانہ، آزاد، متنوع، قابل قبول اور پرامن رکھنے کے عزم کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
’’جمہوریت کی تشکیل‘‘ بین الاقوامی اداروں میں اصلاحات کا بنیادی منتر ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متنوع لوگوں کے مفادات اور پوری دنیا کے باشندوں کی ضروریات اور توقعات کو پورا کرنے کے لیے کام کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شمالی اور جنوبی ممالک کے درمیان حقوق کا تعین غیرجانبدارنہ اور نئے سرے سے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں، سول تنظیموں، انتظامیہ کی مختلف سطحوں وغیرہ کی بین الاقوامی اداروں اور اسٹیج پر زیادہ سے زیادہ شمولیت کے امکانات کو وسعت دینی ہوگی۔
شفافیت، عوام کے تئیں جوابدہی، اختیارات کا ڈی سینٹرلائزیشن اور عام لوگوں کی مدد کی پالیسیاں، جمہوریت کے اس عمل میں بنیادی خصوصیات ہو سکتی ہیں لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت کی تشکیل صرف کام کرنے کے سوال پر ہی مرکوز نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں صرف ممالک کے نمائندوں کی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عام شہریوں کی براہ راست شرکت ہونی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنی جنرل اسمبلی کو وسعت دینی ہوگی، آہستہ آہستہ دیگر اجلاسوں اور سمیناروں میں یکسانیت لانی ہوگی تاکہ عام شہری پورے نظام میں حقوق کے ساتھ فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ ضروری تجاویز کی فہرست بندی اور دیگر تنظیموں، اداروں اورنظام کے پروگرام تیار کرنے والے محکموں پر مؤثر کنٹرول اس کے پاس ہو۔
مثال کے طور پر سب سے پرانی کثیر جہتی تنظیموں میں سے ایک انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کو ہی لے لیں۔ وسیع تر مفادات کے مدنظر اس تنظیم کے لیے ایک خصوصی اسمبلی کی تشکیل کی جاسکتی ہے جس میں مختلف ممالک کے مختلف محکموں کے نمائندوں اور سماجی اداروں کے معروف لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
تنازعات کو روکنے اور قیام امن کے لیے بین الاقوامی اداروں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی تحفظ کا اجتماعی نظام نافذ کیا جائے۔ اس سے کسی بھی تنازع کو حل کرنے کے لیے فوجی طاقت کی بہ نسبت قانون اور پنچایتی تصفیہ کے رجحان کو فروغ حاصل ہوگا۔ امن و سلامتی کے معاملات کے ذمہ دار محکموں کو تمام فریقین کے خیالات کو متوازن انداز میں سننا چاہیے۔ ان محکموں کو اتنا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے کو ماننے کے لیے تمام فریقوں کو پابند کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے موجودہ سلامتی کونسل میں تبدیلی اور اسے مؤثر انداز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تحت کرنا ہوگا۔ دنیا کے تمام حصوں سے مختلف خطوں کے لوگوں کی بھی نمائندگی جنرل اسمبلی میں ہونی چاہیے۔ ’ویٹو‘ کے استعمال کا حق صرف چند ایشوز تک ہی محدود کر دینا چاہیے۔ حالانکہ اس خصوصی حق کو ختم کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ انتہائی اہم ایشوز پر ووٹنگ ’قابل اکثریت‘ کے عمل کے مطابق طے کرنی ہوگی۔
یہ تبدیلیاں ہر قسم کے تنازعات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں معاون تو ہوں گی ہی، ساتھ ہی علاقائی اداروں کی مدد سے تنازعات سے محفوظ رہنے کا طریقہ کار ڈیولپ کرنے اور عالمی سطح کی طاقتور امن فوج کی تشکیل میں بھی اس سے مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں تخفیف اسلحہ بالخصوص غیر روایتی ہتھیاروں کی تخفیف بھی شروع ہوگی، تاہم ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دنیا کے تمام ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کا جذبہ قائم کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔
بین الاقوامی اداروں کی عالمی جامع اقتصادی انتظامی صلاحیتوں کو مالی، اقتصادی، تجارتی، سماجی اور ماحولیاتی پالیسیوں کے ذریعے وسعت دی جانی چاہیے۔ اس میں تمام فریقوں، بالخصوص غریبوں کے مفادات کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ دنیا کے اہم مسئلوں یعنی غربت اور عدم مساوات کو حل کرنے کے لیے ان تمام پالیسیوں کو یکساں اور مربوط انداز میں لاگو کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کو ترجیح دینی ہوگی۔ اقتصادی پالیسیوں و سماجی حقوق اور ماحولیاتی مسائل سے متعلق تشہیر کے لیے بین الاقوامی اسمبلی میں بالترتیب ترجیحات کا تعین کرنا ضروری ہے۔
اس طرح کی اصلاحات کی بدولت غیرملکی قرض، ٹیکسوںکے بڑھتے ہوئے بوجھ کے مسائل کے مستقل حل کی راہ ہموار ہوگی۔ اس سے یونیورسل ٹیکسیشن کارپوریشن جیسے تصورات کو عملی شکل دینا اور عالمی ٹیکس اور ترقیاتی کاموں کے لیے سرکاری فنڈنگ کی مدد میں اضافہ بھی ہوگا، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی ٹیکس اور اس کے استعمال کا طریقہ نتیجہ خیز بن سکتا ہے۔
ان تمام اصلاحات اور پالیسیوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط جمہوری نظام تو لازمی طور پرمضبوط ہوگا ہی،ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر جرائم سے بچاؤ کے اقدامات، عوامی، معاشی، سماجی اور ماحولیاتی قوانین کے تحفظ کے بھی طریقے ازخود واضح ہوجائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں ایک قانون کے مطابق عالم کاری کو یقینی بنانے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ موجودہ بین الاقوامی معاہدوں کو نافذ کرنے کی پابندی، موجودہ بین الاقوامی قانونی اداروں کو مضبوط بنانے اور جن دیگر شعبوں میں ایسے اداروں کی ضرورت ہو، وہاں نئے ادارے قائم کرنے کے لیے فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے ہوں گے۔ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ تمام اداروں کو ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے ضروری اور لازمی ذرائع اور حقوق دلوائے جائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS