محمد حنیف خان
فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے لیے دنیا میں مبغوض ممالک کی فہرست میں اسرائیل کے بعد امریکہ اور عرب ممالک ہیں،اسرائیل اور امریکہ اس لیے اس میں فرنٹ لائن میں ہیں کیونکہ یہی انسانیت کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تار تار کر رہے ہیں،جھوٹ،فریب اور مکاری کے معاملے میںیہ ایسے بے نقاب ہوئے ہیں کہ ستر پوشی کے لیے نہ کوئی مقام ہے اور نہ کوئی ایسا کپڑا جو انہیں ڈھانپ سکے۔یہ حمام کے باہر بھی ننگے ہیں اور حمام کے اندر بھی،مگر وہ عرب ممالک جن میں اخوت کا رشتہ ہے،جو ایمان اور اسلام کی دہائی دیتے ہیں،جہاں یومیہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے بد دعائیں ہوتی ہیں، وہ عمل تو چھوڑیئے قول تک نہیں پہنچ سکے۔سب کے سب چپ ہیں،وہ اپنے عوام کی آواز کو بھی بہ زور طاقت خاموش کیے ہوئے ہیں،اظہار رائے پر ایسی قدغن ہے کہ ان ممالک میں مظاہرے تک نہیں ہوئے ہیں جس کے ذریعہ اسرائیل،امریکہ اور اس کے حواریوں کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے۔ان عرب ممالک اور مسلم ممالک نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہاں کے حکمرانوں کی حکمرانی بر قرار رہے، ان اسلامی اخوت، حمیت،شجاعت اور خلافت کی وراثت قصہ پارینہ بن چکی ہے،یہ 57ممالک اتنے بزدل اور غلام ہوچکے ہیں کہ ان سے بہتر وہ مطرود جانور ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بس وہ دم ہلاتا رہتا ہے،اس میں کم از کم وفاداری تو ہوتی ہے مگر یہاں جو وفاداری ہے اپنے مظلوم بھائیوں کے بجائے ان آقاؤں کے ساتھ ہے جنہوں نے ہر ظلم کو روا رکھا ہے،جو صاف طور پر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی سرزمین کو واپس لیا ہے اور اگر ان ملکوں میں لڑنے کی ہمت ہے تو آئیں اور لڑ کر واپس لے لیں۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نے اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم بکھر گئے تھے،منتشر ہوگئے تھے مگر کبھی ہم اپنی سرزمین کو بھولے نہیں تھے،ہم نے وقت کا انتظار کیا اور جب موقع ملا تو ایک ایسی ریاست یہاں قائم کی جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیاکی قیادت کر رہی ہے،ہم نے اسلحہ سازی پر توجہ دی اور آج ہم اپنی زمین واپس لے رہے ہیں۔دوسری طرف ایک اسرائیلی خاتون کہتی ہے کہ فلسطینیوں کا قتل کو ئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہم یہ جنگ اپنی سرزمین کے لیے لڑ رہے ہیں،اگر ان میں ہمت اور طاقت ہے تو آئیں لڑیں اور واپس لے لیں، اس سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اسی طرح اسرائیلیوں کو قتل کریں تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟وہ کندھے اچکا کر جواب دیتی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے،وہ ایسا کرسکتے ہیں۔یعنی عرب اور مسلم ممالک کی بزدلی پر اسے اتنا پختہ یقین ہے کہ اس کو پہلے سے معلوم ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اگر اس طرح خون بہایا گیا ہوتا،معصوموں کو قتل کیا گیا ہوتا تو اب تک اس کے حامی ممالک دشمن ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے،صدام حسین سے لے کر معمر قذافی اور محمد مرسی تک کے خلاف ان ممالک نے کس طرح محاذ کھول کر ان کی حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے،مگر ایسا اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ ان کے پاس طاقت تھی،انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھا تھا اور اس پر محنت کی تھی،اس لیے جب جہاں چاہا اور جسے چاہا صفحہ ہستی سے مٹا دیامگر دوسری طرف 57عرب اور مسلم ممالک ہیں جو اس قدر مظالم کے بعد بھی مذمت کا جھنجھنا بجا رہے ہیں،ان سے بہتر تو کولمبیااور برازیل ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسرائیلی مظالم کے خلاف بولتے ہیں اور اس پر کارروائی کے لیے عملی اقدام کے خواہاں ہیں۔
کولمبیائی صدر نے تو یہاں تک کہا کہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کے لیے ایک عالمی لشکر بنانا چاہیے جس کی مکمل تجویز بھی پیش کی۔ان عیسائی ممالک کے دلوں میں اسرائیل کے خلاف نفرت اور مظلوموں کا درد ہے،اٹلی میں عوام نے سڑکیں مسدود کرکے حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ قافلہ صمود کی حفاظت کے لیے اپنے بحری جنگی جہاز سمندروں میں اتار دیں اور حکومت کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا، اسپین نے بھی قدم آگے بڑھا یا، فرانس جیسے ملک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کا ناطقہ بند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔برطانیہ جس نے اسرائیل کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا، اس نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا لیکن اگر خاموش ہیں تو عرب اور مسلم ممالک وہ جہاں پہلے دن کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
جن ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے،ان کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ بات صاف طور پر کہی جا رہی ہے کہ انہیں قول سے آگے عمل کی طرف بڑھنا ہوگا،اگر فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نہیں رکتے ہیں،ان پر بمباری نہیں بند ہوتی ہے،وہ اسی طرح مارے اور بھگائے جاتے رہے تو ان ممالک کے اقدام کا کوئی مطلب نہیں ہوگا،اس لیے ضروری ہے کہ یہ ممالک قول سے آگے بڑھ کر عمل کو زمینی سطح پر اتاریں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو بند کرائیں۔ورنہ یہ تسلیم کیا جائے گا کہ ان سب کا یہ اقدام بھی در اصل ایک طرح کی سازش ہے تاکہ دنیا کا غصہ کم ہو اور اسرائیل اپنے مقاصد کی بر آوری میں آسانی سے کامیاب ہوجائے۔
22ستمبر کو نسرین ملک(Nesrine Malik) برطانوی اخبار دی گارجین میں ایک مضمون بعنوان Starmer finally said it: ‘We recognise Palestine.’ But Gaza desperately needs action – where is that? لکھا ہے،جس میں انہوں نے بڑے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ برطانیہ سمیت دوسرے وہ ممالک جنہوں نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے، ان کے لیے یہ لمحہ بہت اہم ہے ،ان کا عملی اقدام فلسطین کی تقدیر کا فیصلہ کرے گااور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کا بطور ملک تسلیم کرنا صفر ہے،اس لیے سیاسی اعلانات سے بالاتر ہو کر عمل میں آنے والے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ فلسطین کے وجود کو بچایاجا سکے۔
یہ بہت اہم بات ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ اگر اس وقت اقدامات نہیں کیے گئے تو اس کے بعد کسی کے پاس کوئی موقع نہیں رہے گا کیونکہ یہودی ریاست نے یہ پوری طرح سے عزم کرلیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو ختم کرکے رہے گی،فلسطینیوں کو یا تو مار دے گی یا پھر انہیں اس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور کردے گی،جس کا وہ عملی ثبوت بھی پیش کر رہی ہے۔دنیا کی تاریخ میں اس طرح کبھی کسی قوم کو بھوکا نہیں مارا گیا،علاج اور بنیادی ضروریات سے محروم نہیں کیا گیا جس طرح فلسطینیوں کے ساتھ کیا گیا۔ان کے درد کو محسوس کرنے کے لیے دل کے بہت زیادہ دردمند ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے بس کم از کم انسانی دل ضرور ہونا چاہیے مگر دنیا اس سے محروم ہوچکی ہے۔عرب دنیا اور مسلم ممالک تو پوری طرح سے قلاش ہوچکے ہیں،ان میں اب نہ حمیت رہی اور نہ ہمت۔
سعودی عرب اس وقت عرب ممالک کا قائد و رائد ہے،اس کے پاس بے پناہ دولت ہے مگر اس کی حیثیت ایسی ہے کہ امریکی صدر آن کیمرہ کہتا ہے کہ محمد بن سلمان کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم ان کی حفاظت کر رہے ہیں،اگر ہم اپنا دست شفقت اٹھالیں تو دو ہفتے ان کی حکومت نہیں رہ سکتی ہے۔پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت ہے،اس طاقت سے لیس ہونے پر سب سے زیادہ فلسطینی خوش ہوئے تھے،انہیں یقین تھا کہ اگر ضرورت پڑی پاکستان ہماری مدد کرے گا، مصرعسکری طاقت ہونے کے ساتھ ہی فلسطین کا پڑوسی بھی ہے مگر یہ سب کے سب بلوں میں گھسے ہوئے ہیں۔مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو جس قدر اسرائیل،امریکہ اور اس کے حواری ان انسانیت سوز مظالم کے لیے ذمہ دار ہیں، اس سے کم ذمہ دار یہ عرب اور مسلم ممالک نہیں ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ ذمہ دار ہیں،جو عوام کو بھی سڑکوں پر نہیں نکلنے دیتے۔
haneef5758@gmail.com