محمد فاروق اعظمی
2014 میں یوپی اے کو ہٹاکر اقتدار حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی نے عوام میں ’ بدعنوانی‘ کا خوف پیدا کیا تھا۔ بی جے پی کے تمام لیڈران ملک کے کونے کونے میں گھوم کر یو پی اے کی بدعنوانی کا راگ الاپتے تھے۔ خود ہمارے وزیراعظم مودی جی کہتے رہے تھے کہ نہ کھائوں گا نہ کھانے دوں گا۔اس زمانے میں مودی جی کی ہر تقریر کا مرکزبدعنوانی ہوا کرتاتھا،وہ کہتے تھے کہ ملک میں بدعنوانی ایک بیماری ہے۔ اس لیے اگر ملک کو بدعنوانی سے نجات دلانا ہے تو اسے کانگریس سے پاک ہندوستان کیلئے کمربستہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے بھی بدعنوانی کی اے بی سی ڈی کی وضاحت کرتے ہوئے اے سے آدرش گھوٹالہ،بی سے بوفورس گھوٹالہ،سی سے کوئلہ گھوٹا اور ڈی سے داماد گھوٹالہ کا ذکر کیاتھا۔ داماد گھوٹالہ سے مرا درابرٹ واڈرا ہیں جو اس وقت کی کانگریس سربراہ سونیا گاندھی کے داماد ہیں۔
ہندوستان کے عوام مودی جی کی چرب زبانی کے جھانسے میںآگئے اور کانگریس سے اقتدار واپس لے کر بی جے پی کے حوالے کردیا۔ لیکن اس کے باوجود ملک بدعنوانی سے پاک نہیں ہوپایا۔ 2014 سے اب تک کے10برسوں میں بدعنوانی نے نئی نئی شکلیں اختیار کرلی ہیں۔اب تو یہ عالم ہوگیا کہ بدعنوانی بلیک میلنگ میں بدل گئی ہے اور ایجنسیوں کے چھاپے، گرفتاری کا خوف دکھا کر لوٹ مار مچائی جارہی ہے۔ جس بدعنوانی کے خلاف مودی جی میدان میں اترے تھے، وہ بدعنوانی اب خود ان کی پارٹی بھارتیہ جنتاپارٹی کے رگ و پے میں سرایت کرگئی ہے۔ زعفرانی پارٹی کا ہر خرد وکلاں بدعنوانی کی دلدل میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ادنیٰ پارٹی کارکن سے لے کر مرکزی وزارت میں اہم ترین قلم دان سنبھالنے والے بھی بدعنوانی کی اسی گنگا سے فیض اٹھارہے ہیں۔بس بدعنوانی کا صرف نام بدلا گیا ہے، اب اسے عطیہ، چندہ وغیرہ کہتے ہیں اوراسے ’ قانونی شکل‘ دینے کیلئے ’ انتخابی بانڈز‘ کا نام دیاگیاتھا۔ہر چند کہ عدالت نے انتخابی بانڈز کو غیر قانونی قراردے دیا ہے کہ جب تک یہ انتخابی بانڈز گردش میںتھے، بی جے پی کے وارے نیارے ہوئے، ایجنسیوںکا ڈر دکھاکر صنعت کاروں سے وصولی کی گئی۔ تازہ خبر ہے کہ مرکزی تفتیشی ایجنسی انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ کا خوف دکھا کر 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم وصولی کے الزام میں مرکزی وزیرخزانہ نرملا سیتارمن اور کئی دیگر بی جے پی لیڈران کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔
جن ادھیکار سنگھرش پریشد(جے ایس پی)کے شریک چیئرمین آدرش ایّر نے عوامی نمائندوں کی خصوصی عدالت بنگلورو میں شکایت درج کروائی تھی اور مرکزی وزیر نرملا سیتارمن کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت مانگی تھی۔ انہوں نے شکایت کی تھی کہ انتخابی بانڈز کی شکل میں رقم زبردستی اور دھمکی کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے تلک نگر پولیس اسٹیشن کو انتخابی بانڈز کے ذریعے جبری وصولی کے الزام کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ جے ایس پی نے 42 ویں اے سی ایم ایم کورٹ میں نرملا سیتا رمن، ای ڈی حکام، جے پی نڈا، نلین کمار کٹیل، بی جے پی کرناٹک کے سابق صدر بی وائی وجیندرا اور بی جے پی کرناٹک کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ شکایت پر غور کرتے ہوئے عدالت نے بنگلورو کی تلک نگر پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی۔ عرضی میںیہ بھی کہاگیا ہے کہ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز سیتا رمن اور دیگر نے 8000 کروڑ روپے کی خورد برد کی۔ مختلف کارپوریٹ کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی اور چھاپوں کی دھمکی کے تحت بی جے پی کیلئے انتخابی بانڈ خریدنے پر مجبور کیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی وصولی میں بدعنوانی کے کئی الزامات سامنے آئے ہیں۔ نریندر مودی کے پہلے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پارٹیوں کو بدنامی سے بچانے کیلئے ’شفاف‘ نظام متعارف کرایا۔ انہوں نے 2018 میں انتخابی بانڈ اسکیم کا آغاز کیا۔ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے، مرکز نے یقین دلایا کہ کوئی بھی فرد یا کارپوریٹ ادارہ بانڈ خرید کر اپنی پسند کی سیاسی پارٹی کو رقم عطیہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بانڈز کون خرید رہا ہے اور کس مقصد کیلئے یہ راز ہی رہے گا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے مطابق مارچ 2018 سے لے کر گزشتہ جنوری تک کئی کارپوریٹ اداروںنے مختلف سیاسی جماعتوںکو بانڈز کے ذریعے کل 16,518 کروڑ روپے کا تعاون دیا۔ 8,250 کروڑ یا اس کا تقریباً نصف بی جے پی کے فنڈ میں داخل ہو چکا ہے۔
سول سوسائٹی نے سیاسی جماعتوں کی مدد کے نام پر اس بھاری رقم کے ’’انتہائی خفیہ‘‘ لین دین پر سوالات اٹھائے۔ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ نے گزشتہ فروری میں واضح کردیا کہ یہ نظام غیر آئینی ہے۔ اسے لوگوں کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی بھی قرار دیا تھا کیونکہ بی جے پی حکومت انتخابی بانڈز کے ذریعہ عطیہ دینے والے لوگوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کرتی رہی۔حکومت کا استدلال یہ تھا کہ عوام کو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ کن لوگوں نے کن سیاسی جماعتوں کو چندہ دیا ہے۔ یہ بانڈ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ذریعے خریدے گئے تھے۔ آزاد درخواست گزاروں کا مطالبہ تھا کہ یہ فہرست لوک سبھا انتخابات (2024) سے پہلے جاری کی جائے تاکہ شہریوں کو معلوم ہوسکے کہ کس پارٹی نے کس کمپنی سے کتنا پیسہ لیا ہے، جب کہ حکومت اور ایس بی آئی تیار نہیں تھے۔ عدالت کی ہدایات پر آناکانی کرتے ہوئے بینک حکام نے بتایا کہ اس کام میں انہیں تین ماہ لگیں گے۔ مقصد یہ تھا کہ انتخابات ختم ہونے کے بعد ہی ان اعداد و شمار کو عام کیا جائے تاکہ انتخابی نتائج پر اس کا اثر نہ پڑے۔ ملک کی کاروباری لابی بھی اس معاملے میں شامل ہوگئی تھی اور سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے ورنہ ان کی ساکھ بھی داغدار ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کی سختی کے بعد جب یہ اعداد و شمار مرکزی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوئے تو ملک میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ یہ معلومات بھی سامنے آئیں کہ کس طرح بی جے پی نے چھاپوں اور گرفتاریوں کا خوف دکھا کر کمپنیوں اور تاجروں سے بانڈ خریدے۔ اس کے بعد سے ہی اس نظام پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔وزیرخزانہ کے شوہرماہر اقتصادیات پرکلا پربھاکر اس پر تبصرہ کرچکے ہیں ’انتخابی بانڈ صرف ہندوستان ہی نہیں دنیا کی سب سے بڑی کرپشن ہے۔‘ اتنا ہی نہیں یہ بھی سامنے آیا کہ کس طرح ای ڈی، انکم ٹیکس، سی بی آئی جیسی تفتیشی ایجنسیوں کا بی جے پی حکومت نے غلط استعمال کیا۔ ای ڈی اور انکم ٹیکس کے ذرائع وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے شک کی سوئیاں سیتا رمن کی طرف بھی بڑھ رہی تھیں،اب توباقاعدہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی بدعنوانی کے الزامات کے بعد وزیرخزانہ کے عہدہ پر رہنے کا انہیں کیاحق حاصل ہے؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی لوگوں کے ذہن میں ابھررہاہے کہ نرملا سیتا رمن اکیلے ہی تو اس پوری بدعنوانی کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی ہیں، پارٹی قیادت اور جس کسی نے بھی انہیں اس بدعنوانی کی ترغیب دی، وہ بھی اس کا اتنا ہی ذمہ دار ہے چاہے وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو۔کیوں کہ ملکی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیںہوتا۔
[email protected]