روشن ہوا ہے ماہ ِ مبیں، جاگ جائیے!

0

ڈاکٹر محمد وسیم صدیقی ندوی
استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

اٹھو اورگوہر مقصود سے دامن بھرو اپنے!
فقط اک ماہ کی خاطر ہے اس مہمان کا جلوہ
رمضان ایک بابرکت مہینہ ہے، اس میں خداکی رحمت جوش میں آجاتی ہے، اورنیکیوں وبھلائیوں کی بہار آجاتی ہے اورایک ایسی خوشی ومسرت حاصل ہوتی ہے کہ جس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جو رمضان کے روزوں سے لطف اندوز ہو، شب بیداری وگریہ زاری کرے، تلاوت وعبادت میں مشغول ہو، اوردعاوتراویح میں اپنے اوقات صرف کرے۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے روزہ کا بدلہ خود دیتاہے، چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”الصوم لی وأنا أجزی بہ” یعنی (اللہ تعالیٰ کہتاہے) روزہ میرے لئے ہے اورروزہ کابدلہ میں خود دیتاہوں ۔روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کے بدلہ کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، اس سے بڑھ کر اس کا اعزازاوراس کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے، یہ ایک طرح کی بشارت ہے، خوش خبری ہے، جس کے برابر کوئی بشارت وخوش خبری نہیں ہوسکتی جس کے بدلہ کی ضمانت خو داحکم الحاکمین نے لی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی بادشاہ کسی انسان سے یہ کہے کہ تم یہ کام پوراکرو اس کی اجرت ومزدوری میں خود دوں گا تو کیا کوئی اس شخص کی مسرت کا اندازہ لگا سکتاہے جس کی اجرت کا وعدہ بادشاہ سلامت خود کرے؟ تو وہ تمام جہانوں کا بادشاہ ہے جس کی جزاء کا وعدہ کرلے اس کی خوشی ومسرت کا کیا پوچھنا، اسے تو بخشش ومغفرت کا پورا یقین ہونا چاہئے۔
جس طرح کبھی جاڑے کا موسم ہوتاہے اورکبھی گرمی کااورکبھی برسات کا، اسی طرح رمضان المبارک میں نیکیوں و بھلائیوں اور عبادت وطاعات کا موسم ہوتاہے، اس موسم میں ایک نیکی کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتاہے ۔چنانچہ حدیث شریف میں آتاہے کہ اس موسم میں نفل کاثواب فرض کے برابر اورفرض کا ثواب ستر گنا پہنچ جاتاہے، اس موسم میں نیکیوں کے لئے دل خود آمادہ ہوتاہے، زیادہ محنت وکوشش کی ضرورت نہیں پڑتی،عبادات میں ایسی لذت اورروحانی سکون اورقلبی راحت ومزہ ملتاہے کہ جس کا اندازہ صرف وہی لگاسکتاہے جو روزہ رکھے اورذکر وعبادت میں مشغول ہو، اس ماہ میں شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں اور انسانوں کو ان کے شرسے محفوظ کردیا جاتاہے۔ روزہ نفس ِ انسانی میں قربانی اورجدوجہد اورطاعت وبندگی کا ملکہ پیداکرتاہے، روزہ ’نفس کُشی‘، اخلاقی شائستگی، انسانی ہمدردی، بھائی چارگی وخیرخواہی کی رغبت دلاتاہے، اللہ کے احکام وضوابط پر کاربندرہنے اورپابندہونے کا احساس جگاتاہے، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ ایک حدیث میں آیاہے :’ من صام رمضان إیمانا واحتساباً غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘ جو شخص رمضان کے روزے ایمان ویقین اوراللہ کی خوشنودی اوررضائے الہی کے لئے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیتاہے۔ ثواب کی امید ہو، اللہ کی خوشنودی ورضاجوئی مقصودہو، تنقید سے بچنے اورسماج کے خوف سے روزہ نہ رکھے، نہ ہی لذت طلبی وریاکاری کے لئے ہو، ایک جگہ حدیث میں ہے: ’الصوم جنۃ‘، روزہ ڈھال ہے، یہ حدیث مختصر مگرجامع ہے،اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ روزہ گنا ہوں سے بچنے کی ڈھال ہے، فواحش ومنکرات سے بچنے کی ڈھال ہے، ظاہری وباطنی دشمنوں سے بچنے کی ڈھال ہے، باطنی امراض اورظاہر ی برائیوں سے بچنے کی ڈھال ہے، روزہ عطیہ ربانی ہے ، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی مثال مختلف مذاہب میں بھی ملتی ہے، البتہ شکلیں مختلف ہیں۔ چنانچہ عیسائی مذہب ہو یا یہودی، روزہ ہر مذہب میں نظر آتاہے:’ کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ‘۔ یہ رحمانی رحمتوں کے نزول کا وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں رحمتوں کی ہوائے مشک بار چلتی ہے، ہرقسم کی برکتیں اورہر نوع کی نعمتیں جوسال بھر میں کسی کو، کسی راہ سے میسر آسکتی ہیں وہ اس ماہِ مبارک کے دریائے رحمت وبرکت ِ بے بہا کا ایک قطر ہ ہیں جیسا کہ مجدد الف ثانی نے فرمایا ہے، اس ماہ میں اگرکسی کو یکسوئی ودلجمعی کی نعمت مل گئی تو تمام سال یہ جمعیتِ خاطر باقی رہے گی، لہذا بہت مبارک ہے وہ شخص جس سے رمضان کا مہینہ خوش ہوکر گذرا اورتباہی ہے اس کی جس سے یہ ناراض ہوگیا اوراس ماہ کی برکتیں نہ پاسکا، اوراس کی نعمتوں سے محروم رہا، اس ماہِ مبارک کے دن سے جو برکتیں وابستہ ہیں وہ اورہیں، اورجونعمتیں رات سے وابستہ ہیں وہ اورہیں، افطار میں عجلت کرنے اورسحور میں تاخیرکرنے کا جو حکم ہے اس کا رازیہی ہے کہ دونوں اوقات دن ورات کے درمیان مکمل امتیازہوسکے (یعنی دونوں وقتوں کی برکتیں پورے طورپر حاصل ہوں)
رمضان المبارک نزول ِ قرآن کا زمانہ ہے، اورقرآن تمام خیر وبرکت کا جامع ہے،لہذا خیر وبرکت سے معمور کتاب کو خیروبرکت سے معمور زمانہ سے خاص الخاص نسبت ہے،یہی سبب ہے کہ قرآن پاک کا ایک ختم اس ماہ میں سنت ہے تاکہ کتاب اللہ کے انوارِ ظاہر ی وبرکا ت ِ حقیقی کا حصول ممکن ہو۔
علامہ سیدسلیمان ندوی نے سیرت النبی جلد پنجم (ص:148، مطبوعہ مکتبہ مدنیہ لاہور) میں لکھاہے کہ: ’ وہ (روزہ) درحقیقت ہواؤہوس اوربہیمی خواہشوں سے اپنے آپ کوروکنے اور حرص ہوا کے ڈگمگانے والے موقعوں میں اپنے آپ کو ضابط اورثابت قدم رکھنے کا نام ہے، روزانہ استعمال میں عام طورسے نفسانی خواہشوں اورانسانی حرص وہوا کا مظہر تین چیزیں ہیں،یعنی کھانا، پینا اورعورت اورمرد کے جنسی تعلقات، انہیں تینوں سے ایک مدتِ معینہ تک رکے رہنے کا نام شرعاًروزہ ہے، لیکن دراصل ان ظاہر ی خواہشوں کے ساتھ باطنی خواہشوں اور برائیوں سے دل اور زبان کا محفوظ رکھنا بھی خواص کے نزدیک روزہ کی حقیقت میں داخل ہے۔ ‘
اس ماہ کے دن برکت سے بھرے ہیں، اورراتیں رحمت سے بھری ہیں، خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو یہ ماہِ مبارک مل گیا ، اور اسے اس کے ایام سے فائدہ اٹھانے اورشکر وسپاس کا موقع ہاتھ آجائے، روزہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا شکریہ ہے جواس نے انسانوں پر اپنے رسول اکرم ﷺ کے ذریعہ کیاہے، کتاب ِالہی، تعلیمِ ربانی اورہدایتِ روحانی جو قرآن کے ذریعہ انسانوں کو عطا ہوئی، اس کے اس احسان کی بجاآوری ہے ، چنانچہ فرمایا: شہر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ھدًی للناس وبینت من الہدی والفرقان ”۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اورآپ کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS