مولانا ابوبکر حنفی
قرآنی بیان کے مطابق روز ِ اول سے سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان بارہ میں سے چوتھا مہینہ ربیع الثانی ہے ،اہل ِ عرب اس کو زیادہ تر ربیع الاخر کے نام سے پکارتے تھے۔ قرآن وسنت سے اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت یا اس میں کوئی مخصوص وظیفہ یا عمل تو ثابت نہیں، البتہ اس میں زمانہ نبویؐ ، عہد خلفاء راشدین اور بعد کے ادوار میں بہت سے تاریخی اور اسلامی واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے اس مہینے کا تاریخ اسلام سے گہرا ربط ہے اور مؤرخین کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ: عربی لغت میں ’’ربیع ‘‘کا معنی بہار اور’’ اول‘‘ کا معنی پہلا ہے ،دونوں لفظوں کا مجموعی معنی ہوا ’’پہلی بہار‘‘اس لغوی تحقیق کے تناظر میں ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ موسم بہار کا ایک ابتدائی زمانہ ہوتا ہے جس میں پھل پھول پکنا شروع ہوتے ہیں اس کو ربیع الاول یعنی پہلی بہارکہتے ہیں ،پھر کچھ عرصہ بعد یہ بہار اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے جس میں پھل اور پھول پوری طرح پک جاتے ہیں اس لیے اس کو ربیع الثانی یعنی دوسری بہار کہا جاتا ہے۔ ان دونوں مہینوں کو ’’ربیعین‘‘ یعنی دو بہاریں کہا جاتا ہے۔ ابن ِ کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ ربیع کالفظ ارتباع سے نکلا ہے جس کا معنی’’موسم ِ بہار میں قیام کرنا ‘‘ ہے،عرب کے لوگ ان دو مہینوں میںموسم ِ بہار کے مزے لوٹنے کے لیے تمام اسفار ترک کر کے اپنے گھروں میں قیام پذیر ہو جاتے تھے۔
عہد نبوی اور ماہ ربیع الثانی:ربیع الثانی۱ھ میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو کہ یہودی مذہب کے بہت بڑے عالم اور توریت پر بہت زیادہ دسترس رکھنے والے تھے ،اپنے اہل خانہ اور پھوپھی خالدہ بنت حارث سمیت حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ توریت میں جب آپؓ نے نبی آخر الزماں کی علامات کو پڑھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں انہیں من و عن پایا تو بقیہ یہودیوں کی طرح کتمان علم اور تحریف سے کام نہیں لیا بلکہ برملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو کر مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ مذکورہ سال کے اسی ماہ میں نمازوں کی رکعات میں اضافہ ہوا ،شب معراج میںجو نماز ِ پنجگانہ کی فرضیت ہوئی اس میں مغرب کے سوا تمام فرضی نمازیںدو دو رکعات پر مشتمل تھیں لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ظہر ،عصر اور عشاء کی چار چار رکعات مقرر ہوئیں۔ اس سال کے اس مہینے میں یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ہجرت کے بعد مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کی معاشی مجبوری اور مالی تنگدستی کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ساتھ ان کی مواخات کروائی جسے انصار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی سعادت سمجھ کر برضاء و رغبت قبول کیا اور یہ رہتی دنیا تک خدمت ِ انسانیت کی عظیم مثال ٹھہرا۔ مواخات کا یہ عمل مہاجرین و انصار کے درمیان انجام پایا تھا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس موقع پر اس خصوصی اعزاز سے نوازا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھائی بندی اپنے ساتھ فرمائی، یہ واحد جوڑی تھی جس میں دو مہاجروںکے درمیان مواخات کا رشتہ قائم ہوا تھا جبکہ بقیہ تمام جوڑی ایک مہاجر اور ایک انصاری تھا۔
ربیع الثانی ۳ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کا تیس برس کی عمر میںوصال ہوا، ان کی سب سے نمایاں خوبی فقراء اور مساکین سے خصوصی محبت تھی، انہیں کھانا کھلا کر ان کی دعائیں لینا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، اپنی اس فیاضی کی بناء پر وہ ’’ام المساکین‘‘ کے لقب سے معروف تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کا جنازہ پڑھایا اور اپنے دست اقدس سے لحد میں اتارا۔ ربیع الثانی ۶ھ میں غزوہ ذی قرد پیش آیا، یہ غزوہ چونکہ جنگل میں ہوا تھا اس لئے اس کو ’’غزوۃ الغابہ‘‘ بھی کہتے ہیں،غابہ عربی میں جنگل کو کہا جاتا ہے۔ اس کامختصر پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مویشی جنگل میں چر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابن حض نے چالیس سواروں کے ہمراہ ان پر ڈاکہ ڈالا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سات سو ساتھیوں کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے،حضرت سلمہ بن اکوعؓ اکیلے پیدل چلتے ہوئے باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے اور دشمنوں پر اتنی زبردست تیر اندازی کی کہ وہ سارے جانور چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پریشانی میں وہ تیس چادریں ،تیس نیزے اور تیس ڈھالیں بھی چھوڑ گئے۔ حضرت سلمہؓ اونٹ اور دیگر مال غنیمت لارہے تھے کہ راستے میں قافلے سے ملاقات ہو گئی،جب قافلے کو ساری صورتحال سے مطلع کیاتو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور سارا قافلہ وہیں سے بغیر لڑائی کے واپس مدینہ کو روانہ ہو گیا۔ اسی ماہ میں سریہ مکاشفہ بن محصنؓ پیش آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مکاشفہؓ کی معیت میں چالیس گھوڑ سوار وں کوغمزوق نامی مقام کی طرف بھیجا۔ یہ مکہ کے راستے میں واقع ایک کنویں کا نام ہے۔ یہاں پہنچ کر کسی لڑائی کی نوبت نہ آئی اور مسلمانوں کو مال غنیمت میں دو سو اونٹ حاصل ہوئے۔ اسی سال ماہ ربیع الثانی میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سوار دے کر مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پرذوالقصہ نامی علاقے میں بھیجا، لڑائی میںمسلمانوں کو شکست ہوئی اور متعدد مسلمان شہید ہو گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع پاتے ہی حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کو مدد کے لئے بھیجا جنہوں نے آکر کفار سے مقابلہ کیا اور حساب برابر کر دیا۔ مذکورہ سال کے اس ماہ کی آخری تاریخ کو ایک اور فتح بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگی، مدینہ سے اکیس میل کے فاصلے پر’’موضع جموم‘‘میں سریہ بنی سلیمؓ نے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور ان کے بہت سے اونٹوں پر قبضہ کر کے مدینہ لے آئے۔