محمد توقیر رحمانی
انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے۔ آزادی اس کی جبلت کا حصہ ہے، جو نہ صرف اس کے وقار بلکہ اس کے وجود کی اولین بنیاد ہے۔ تاہم، جیسے جیسے زمانہ اپنی رفتار پکڑتا گیا اور ترقی کے دروازے کھلنے لگے، طاقت اور دولت کے نشے میں مدہوش انسانوں نے اس فطری آزادی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ یہ وہ خودساختہ عقل مند تھے جو اپنی دانائی کے دعووں کے باوجود انسانیت کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا تھے۔ انہوں نے کمزوروںاورمظلوموںپراپنی طاقت کابے رحمانہ استعمال کیا اور انہیں غلامیت کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔
غلامی کی ابتدا انسانی تاریخ کے ان تاریک ادوار سے ہوتی ہے، جب قوت و اختیار کے حامل افراد نے اپنی برتری کو دوسروں کی آزادی چھیننے کا جواز بنا لیا۔ یہ عمل محض طاقت کی ہوس نہیں تھا، بلکہ انسانی فطرت کے اس حصے سے بغاوت تھی جو آزادی کو زندگی کا سب سے اہم جزو تصور کرتی ہے۔یہ ذہنی اور جسمانی غلامی نہ صرف انسان کی انفرادی شخصیت کو مجروح کرتی ہے بلکہ اس کے سماجی ڈھانچے کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے۔
یہ غلامی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئی کبھی زنجیروں اور خرید و فروخت کی صورت میں اور کبھی سماجی و معاشی جبر کی شکل میں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی کے جابرانہ نظاموں میں حکمرانوں نے اپنی رعایا کو اس قدر بے بس کر دیا کہ انہیں محض زندہ رہنے کے قابل روکھا ،سوکھا ،کھانا دیا جاتا تھا۔ ان حکمرانوں نے اجرت دینے یا محنت میں شراکت کے تصور کو یکسر نظرانداز کر دیا اور خود کو ان کی موت و زیست کا مالک سمجھتے ہوئے خدائی کا دعویٰ تک کر ڈالا۔ یہ انسانیت سوز رویہ نسل در نسل جاری رہا اور غلامی کی زنجیریں انسانیت پر بوجھ بنتی گئیں۔اسی تاریک دور میں محسنِ انسانیت، حضرت محمد ؐ کی بعثت وہ صبح صادق تھی جس نے غلامی کے فرسودہ اصولوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا آغاز کیا۔ آپ ؐ کی آمد انسانیت کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہوئی، جس نے ظلم و جبر کے اندھیروں کو چاک کر کے آزادی کے چراغ روشن کیے۔ آپ ؐ نے اپنے قول و فعل سے دنیا کو یہ حقیقت باورکرائی کہ آزادی انسانی فطرت کا لازمی جزو ہے، اور غلامی انسان کے شایان شان نہیں۔
آپ ؐ نے مظلوموں کو ان کے حقوق دلانے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کے ذریعے غلاموں کو آزاد کیا اور اپنے اصحاب کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ یہ انقلاب نہ صرف غلاموں کی آزادی کا ذریعہ بنابلکہ انسانیت کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا، جہاں ہر فرد عزت، وقار، اور مساوات کے ساتھ زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے۔تاریخ اقوام کے عروج و زوال کا آئینہ دار ہے اور یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں غالب رہیں، جنہوں نے ذہنی اور جسمانی آزادی کو اپنا شعار بنایا۔ ایسی اقوام نے نہ صرف اپنی خودی کو پہچانا بلکہ اس کی حفاظت کو اپنا اولین فرض سمجھا۔ اسکے برعکس،وہ قومیں جو عیش پرستی،زرو جواہرات کی پرستش اور نفسانی خواہشات کی غلام بن گئیں،ہمیشہ زوال کی گہری کھائی میں جا گریں۔ ان کا مقدر یا تو فنا کے گھاٹ اترنا ٹھہرا یا ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر دوسروں کا آل کار بننا۔ شاہین کی بلندی اس کے حریت پسند نظریے کی عکاس ہے، جبکہ کرگس کی پستی غلامی کے بوجھ کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شاہین کی بلندی دراصل اسکی آزادی اور خودداری کی مرہون منت ہے، جبکہ کرگس کی پستی غلامی اور ناتوانی کی علامت ہے:
پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور
لیکن تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو قومیں خودداری، حریت پسندی اور عزت نفس کے اصولوں پر ڈٹ گئیں، وہی زمانے کے نشیب و فراز میں بھی اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔ اگر کبھی وہ گردش ایام کے سبب دب بھی گئیں، تو موقع ملتے ہی اپنے پرچم کو سربلند کر کے دنیا پر اپنی عظمت کا سکہ جما دیا۔ ایسی اقوام کے کارنامے آج بھی تاریخ کے سنہری صفحات پر چمکتے ہیں، جو ان کے عزم، حوصلے، اور آزادی کی غیر متزلزل محبت کا ثبوت ہیں۔ یہی وہ سبق ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اقوام کا حقیقی وقار آزادی میں پوشیدہ ہے، اور غلامی صرف زوال کا پیش خیمہ ہے۔
انسانیت کی اس عظیم المیے کا حل تبھی ممکن ہے جب آزادی کی اصل روح کو سمجھا جائے اور اسکے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ایسے حالات میں لازم ہے کہ ہم تاریخ کے ان اسباق کو یاد رکھیں جو یہ سکھاتے ہیں کہ آزادی ایک نعمت ہے اور غلامی ایک لعنت، اور ان دونوں کے درمیان صرف عدل، مساوات اور انسانیت کے اصول ہی حقیقی پل کا کام دے سکتے ہیں۔ آزادی کے تحفظ کا تقاضا یہی ہے کہ اگر اس گلستان میں خوشبو باقی نہ رہے تو انسان اپنی خودداری کے ساتھ کسی بے کراں صحرا کو اپنا مسکن بنائے، کیونکہ عزت و آزادی کی زندگی ہی اصل حیات ہے:
نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستاں سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی