محمد حنیف خان
اردوزبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے لیکن سچائی یہ نہیں ہے،سچائی یہ ہے کہ اس کو ایک قوم کی زبان بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔مسلمانوں کو بھی اب اس زبان کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت ثابت کرنے سے باز آجانا چاہیے۔اگر چہ اردو کا مولد و منشاہندوستان ہے اس کے باوجود کم از کم اب مسلمانوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ ان کی اپنی زبان ہے،جس میں ان کا دینی اور تہذیبی سرمایہ محفوظ ہے۔اگر وہ اپنی نسل کو اس سرمایہ سے واقف کرانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی سطح پر اس زبان کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدام کرنے چاہئیں۔جس طرح ہندوستان کے مختلف علاقے میں رہنے بسنے والوں کی مختلف زبانیں ہیں اسی طرح شمالی ہند،دکن اور کشمیر کے ساتھ ان علاقوں کے مسلمانوں کو اردو کو اپنی زبان تسلیم کرلینا چاہیے جہاں اردو بولی،لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔گنگا جمنی تہذیب کا بوجھ صرف مسلمانوں کے کندھے پر ہی نہیں ہونا چاہیے جب یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو دونوں کی برابر ذمہ داری ہے لیکن جب گنگا کا بہاؤ دوسری سمت میں ہے اور جمنا کا دوسری سمت تو ایسے میں دوسرے کو بھی حق ہے کہ اپنی سمت لے دوسرے کی سمت میں بہہ کر اپنی قوت و توانائی ضائع نہ کرے۔ہندوستان میں 22زبانوں کو آئینی حیثیت حاصل ہے جس میں اردو بھی شامل ہے،بعض ریاستوں میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ بھی حاصل ہے۔اس کے باوجود آج اردو کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
حکومت مدھیہ پردیش نے اردو کو سرکاری اداروں سے کلی طور پر باہر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے،اس کا حالیہ فیصلہ اسی ضمن کی ایک کڑی ہے۔مدھیہ پردیش پولیس ہیڈکوارٹر نے ایک اعلامیہ جاری کرکے مختلف اضلاع کے ایس ایس پی کو اور دیگر سینئر پولیس افسران کو ہدایت دی ہے کہ محکمہ میں استعمال کی جانے والی اردو اور فارسی کی لفظیات کی دستاویزی حیثیت ختم کی جائے اور ان کی جگہ خالص ہندی کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔اس خط کے مطابق ایک ایسی ڈکشنری تیار کی جائے جن میں اس محکمہ میں استعمال کی جانے والی غیرہندی لفظیات کا ہندی مترادف درج کیا جائے تاکہ مستقبل میں ان ہی کا استعمال کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق اردو اور فارسی کے دو سو ایسے الفاظ ہیں جن کو محکمے کی کارروائی سے خارج کیا جائے گا اور ان کی جگہ ہندی الفاظ استعمال کیے جائیں گے۔ مثلاً سراغ، روزنامچہ، آلہ قتل، واردات، سزا یافتہ، گشت، دوران، بیجا، حبس، غلط، جرائم، ذیل، حلف نامہ، لہٰذا، فرد، استغاثہ،مجرم وغیرہ جیسی متعدد لفظیات ہیں جنہیں دستاویزی کارروائی سے باہر نکالا جانا ہے۔یہ وہ لفظیات ہیں جنہیں1861میں جب پولیس ایکٹ تشکیل ہوا تھا تو اس وقت انگریزوں نے اختیار کیا تھا۔یہ الفاظ اپنے آپ میں نہ صرف مکمل ہیں بلکہ ان کے پیچھے گہری معنویت بھی ہے جنہیں محکمہ پولیس کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح عدلیہ میں بھی اردو،فارسی اور عربی لفظیات کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ آج بھی،زمین کی خرید و فروخت میںبیع نامہ،داخل و خارج،کے ساتھ ہی متعدد لفظیات کا استعمال ہو رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت نے ان لفظیات کو دیس نکالا دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟بادی النظر میں جو وجہ بتائی گئی وہ یہ کہ اس طرح کی لفظیات کوسمجھنے میں دشواری آتی ہے،اس لیے ان کا تبدیل کردیا جانا ہی بہتر ہے تاکہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہی عوام کو بھی سمجھنے میں پریشانی نہ ہولیکن درحقیقت معاملہ یہ نہیں ہے۔جاری خط میں یہ بات تو صرف اس لیے لکھی گئی ہے تاکہ سوال اٹھنے سے قبل اس کا جواب دے دیا جائے اور عوام کو بتانے کے لیے کچھ ہونا بھی چاہیے۔اس کے پس پشت وہی ذہنیت کار فرماہے جس کی آبیاری گزشتہ سو برس سے کی جا رہی تھی۔جس کے بعد آج یہ فکر ذہنوں میں راسخ ہوگئی کہ مسلمان،ان کی علامت اور زبان ہر ایک سے نفرت ہونی چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے دسمبر میں ریاست کے کمشنرس اور ضلع کلکٹروں کے ساتھ کانفرنس میں مرکب لفظ ’’دستیاب‘‘ کو مغل دور کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغل دور کی اس طرح کی نشانیوں کو ختم کرکے ان کی جگہ ہندی کے الفاظ استعمال کیے جانے چاہئیں۔اس سے قبل اترپردیش اور راجستھان میں بھی اس طرح کی کارروائی ہوچکی ہے۔روزمرہ استعمال میں آنے والی ان لفظیات سے خاص ذہنیت رکھنے والوں کو اس قدر پریشانی ہے کہ وہ ان کو سننا تک پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ ممالک جہاں کبھی مسلمانوں کی حکومت تھی اور عربی زبان کو دستاویزی حیثیت حاصل تھی جب مسلمانوں کی حکومتیں ختم ہوئیں تو وہاں سے عربی زبان کا بھی خاتمہ کردیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر یہ لفظیات برقرار رہیں تو اس سے مستقبل میں ان کو پریشانی ہوسکتی ہے۔ فرانس ان ممالک میں سب سے اہم ہے کیونکہ یہاں ایک عرصہ دراز تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔اس کے باوجود آج بھی کچھ ایسی نشانیاں باقی ہیں جو اس دور کی یاد دلاتی ہیں۔مولانا تقی عثمانی نے اپنے سفر نامہ ’’دنیا مرے آگے‘میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے’ جبرالٹر‘کے بارے میں لکھا ہے، یہ در اصل ’ جبل الطارق ‘کی بدلی ہوئی شکل ہے جو اندلس کو فتح کرنے والے طارق بن زیاد سے موسوم ہے۔ اسی طرح سے ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان کو آزادی ملنے سے دو سو برس قبل مغلوں کی حکومت ختم ہو گئی تھی اور مغل وہ افراد تھے جو اسی مٹی سے پیدا ہوئے اور اسی مٹی میں مل گئے، اسی ملک کی ترقی کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگیاں قربان کردیں،یہاں کے عوام کو خوش رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے خزانے کھول دیے، ان سے تو نفرت ہے لیکن انگریز حکومت جس نے ظلم کے پہاڑ توڑے، جن سے ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ لڑکر آزادی حاصل کی، ان سے نفرت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ہے۔مغلوں سے نفرت کی وجہ سے اردو کو موردالزام ٹھہرا یا جاتا ہے اور سرکاری اداروں سے اس کو یہ کہہ کر باہر کیا جاتا ہے کہ مغل دور کی نشانی ہے۔مغل بھی اصل نہیں ہیں یہ بھی مسلمانوں کی علامت ہیں،اسی لیے جب مغل کا نام لے کر کوئی چیز مسترد کی جاتی ہے تو در اصل وہ مسلمانوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔حکومت نے اردو اور فارسی لفظیات کو دستاویزی کارروائی سے باہر نکالنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ اسی ذہنیت کے تحت کیا ہے۔
یہ عام بات ہے کہ جب کسی قوم سے نفرت کی جاتی ہے یا اس کا خاتمہ مقصود ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی زبان پر حملہ کیا جاتا ہے کیونکہ زبان وہ غیر مرئی وسیلہ ہے جس کے ذریعہ تہذیب و ثقافتیں زندہ رہتی ہیں۔جینوسائڈ واچ کے ڈائریکٹر پروفیسر گریگوری اسٹائنن نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان نسل کشی کا شکار ہوسکتے ہیں اور وہ اس وقت آٹھویں فیز میں پہنچ چکے ہیں۔ریوانڈا کے تتسی میں 1994میں نسل کشی سے قبل پروفیسر گریگورین نے پیش گوئی کردی تھی جو سچ ثابت ہوئی تھی۔زبان پر اس طرح حملہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے جسے ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،اس کے باوجود گنگا جمنی تہذیب کی بات کرتے ہیں۔ہمیں اپنی تہذیب اور اپنی زبان کے تحفظ کے لیے اب یکطرفہ طور پر میدان میں آنا ہے اور گھروں میں اردو بولنے اور بچوں کو اردو کی تعلیم دینے کے ساتھ ہی اردو میڈیم اسکولوں کے قیام کی طرف توجہ مرکوز کر نا ہے۔اگر کوئی ایک چراغ بجھاتا ہے تو ہمیں اس کی جگہ دس چراغ روشن کرنا ہے تاکہ اس کی روشنی بہت دور تک جائے اور نسلیں اپنی زبان و تہذیب سے واقف رہ سکیں۔
[email protected]