حالیہ برسوں میں ہندوستان جنت نشان بہت سی تبدیلیوں کا شاہد بنا ہے۔ان میں کچھ تبدیلیاں برائے تبدیلی ہیں تو کچھ برائے بہتری لیکن زیادہ تر تبدیلیاں برائے ابتری ہیں۔ان تبدیلیوں نے سماج اور معاشرہ کو تہہ و بالاکرکے اکثریت کی سوچ و فکر کو ایک ایسے سانچہ میں ڈھال دیا ہے جن سے شدت پسندی اور فرقہ واریت کے زہریلے ناگ باہرنکل رہے ہیں۔درجنوں پرانی روایتیں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں تو کئی نئے تصورات نے بھی جنم لیا ہے۔ان ہی میں سے ایک اظہار رائے کی آزادی ختم کرکے میڈیا کو ’اقتدار‘ کاپابند بناناہے۔اس تصور نے جہاں ملک میں سیاسی افلاس کو تیز کیا ہے تو وہیں جمہوریت کے چوتھے ستون میں ایسا دیمک لگادیا جو دھیرے دھیرے اسے کھوکھلا کرتاجارہاہے۔ یہ سلسلہ اگر یوں ہی دراز رہا تو کچھ عجب نہیں کہ یہ ستون زمین بوس ہوجائے۔عالمی اداروں کے سروے اور جائزے میں کئی ایسے انکشافات آچکے ہیں جن میں میڈیاکی کم ہوتی آزادی کو اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے اور مجموعی صورتحال پر روشنی پڑتی ہے۔ لیکن اندرون ملک ہونے والے ایک سروے میں جو انکشافات کیے گئے ہیں، انہیں دیکھ کر یہ محسوس ہورہاہے کہ ہندوستان میں میڈیا اختتامی سفر پر ہے۔
’لوک نیتی اور سی ایس ڈی ایس‘ کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں چونکا دینے والے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے تجارتی پریس کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا کون سنبھال رہا ہے اور کس کیلئے یہ سوال بھی پیدا ہوا ہے۔ سروے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ صحافیوں کی ایک بڑی اکثریت محسوس کرتی ہے کہ میڈیا سیاسی طور پر متعصب ہوگیا ہے۔ 82 فیصد نے کہا کہ وہ جن میڈیا تنظیموں کے لیے کام کرتے ہیں، وہ بی جے پی کی طرف متعصب ہیں۔ یہاں تک کہ صرف انگریزی میڈیا کے معاملے میں 80 فیصد صحافیوں نے کہا کہ میڈیا بی جے پی کیلئے کام کر رہا ہے۔ 80 فیصد صحافیوں نے رائے دی کہ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ حد سے زیادہ وفاداری دکھائی جا رہی ہے۔ اسی طرح 61 فیصد نے محسوس کیا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف حد سے زیادہ دشمنی ہے۔اس کے علاوہ سروے میں شامل اس سے پتہ چلتا ہے کہ 72 فیصد صحافیوں کا خیال ہے کہ نیوز چینلز پہلے کی نسبت اب کم آزاد ہیں۔ نہ صرف الیکٹرانک چینلز بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی 55 فیصد صحافیوں کا خیال ہے کہ انہیںاپنے کام کو صحیح طریقے سے کرنے کی آزادی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔
سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز(سی ایس ڈی ایس ) ایک خود مختار سوشل سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے جو تقابلی جمہوریت کیلئے ’ لوک نیتی‘ پروگرام بھی چلاتا ہے۔میڈیا سے متعلق اس کی یہ رپورٹ ’’میڈیا ان انڈیا: ٹرینڈز اینڈ پیٹرنز‘‘ کے نام سے سامنے آئی ہے۔اس رپورٹ میں مختلف میڈیا پلیٹ فارمز (ڈیجیٹل، پرنٹ اور آن لائن) اور مختلف زبانوں (انگریزی، ہندی اور علاقائی زبانوں) کے 206ممتاز صحافیوں کی آرا کو شامل کیا گیا ہے۔ان صحافیوں میں سے 75 فیصد مرد تھے اور سروے میں شامل صحافیوں میں سے تقریباً 37فیصد کی عمریں 46 سال سے زیادہ تھیں۔ سروے میں شامل تین چوتھائی صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ ان کاادارہ خاص سیاسی پارٹی کے تئیں تعصب اور امتیازبرتتا ہے اور 5 میں سے 4 نے کہا کہ نیوز میڈیا بی جے پی کی حمایت کرتا ہے۔ اس سروے کا جواب دینے والے 16 فیصد صحافیوں نے کہا کہ انہیں سیاسی وجوہات کی بنا پر ملازمت چھوڑنے کیلئے کہا گیا تھا۔ 50 فیصد سے زیادہ صحافیوں کو خدشہ ہے کہ وہ اسی وجہ سے کسی بھی وقت اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔جن لوگوں نے اس سروے کا جواب دیاہے وہ کسی نہ کسی میڈیا ادارہ سے وابستہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب بی جے پی کے تئیں بے جا وفاداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ یہ صحافی معروضی صحافت کرنا بھی چاہیں تو ان کے پاس کوئی راستہ نہیںکیونکہ انہیں ادارے کی ادارتی پالیسی کے دائرۂ کار میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے آج ہندوستان کے میڈیا میں مرکزی حکومت پر تنقید تقریباًممنوع ہوچکی ہے۔
اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تجارتی پریس کا ایک اہم حصہ اب کارپوریٹ ملکیت میں ہے۔ میڈیا کی پالیسیاں کارپوریٹ مالکان کے مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ماس میڈیا اب ’ماس‘ میڈیا نہیں رہا۔ اس میں مالک اور حاکم کا کنٹرول شامل ہو گیا ہے۔ معروضی صحافت کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔ نہ صرف حکمراں جماعت سے اندھی وفاداری نبھائی جارہی ہے بلکہ میڈیا جعلی خبریں اور نفرت پھیلانے کا گھنائونا کام بھی کررہاہے۔بارہا یہ مشاہدہ میں بھی آچکا ہے کہ میڈیا سے وابستہ ایسے صحافی جو لبرل، ترقی پسند اور غیرفرقہ وارانہ موقف اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بیک بینی دو گوش نکال باہر کیاجاتا ہے۔’’میڈیا ان انڈیا: ٹرینڈز اینڈ پیٹرنز‘‘ کے اعداد و شمارصحافیوں میں گھر کر جانے والی مایوسی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی بنیاد پر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگرجلد ہی تبدیلی برائے بہتری کی کوئی لہر نہیں اٹھی تو ہندوستان بہت جلد میڈیاکے ’تمت بالخیر‘کا بھی شاہد بنے گا۔
[email protected]
ہندوستان میں میڈیا کا ’تمت بالخیر‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS