عباس دھالیوال
امریکہ کے افغانستان سے فوج واپسی کے فیصلے پر اردو کے معروف شاعر و نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے کہ :
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
دراصل اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر جس طرح سے یکایک دہشت گردوں نے حملے کیے تھے۔ اس کے بعد پوری دنیا میں جیسے ایک کہرام سا مچ گیا تھا اور ہر کسی کے من میں یہی سوال تھا کہ آخر دنیا کی اس سپر پاور کے خلاف ایسی گھناؤنی کارروائی کرنے کی جسارت کس نے اور کیوں کی۔چنانچہ کچھ ہی گھنٹوں کے بعد میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس کارروائی کو انجام دینے میں افغانستان کے القاعدہ گروپ کا ہاتھ تھا،حالانکہ کے بعد ازاں ان حملوں کو لے کر مختلف طرح کی متضاد باتیں بھی سامنے آتی رہیں، لیکن میڈیا کی طرف سے ان پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
چنانچہ ان مذکورہ حملوں کے بعد واشنگٹن نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان پر پے درپے کئی ہوائی حملے کیے اور بعد ازاں امریکی و اس کی اتحادی افواج نے افغانستان کی سر زمین پر مستقل طور پر اپنے ڈیرے جما لیے۔ بے شک اس دوران افغانستان میں مختلف منتخبہ حکومتیں بنتی اور تحلیل ہوتی رہیں،لیکن تب سے لیکر اب تک مسلسل امریکہ و اس کی اتحادی افواج نے افغانستان نہیں چھوڑا تھا ۔ بے شک اس اثنا میں کئی بار افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکی بات چلی لیکن ہر بار اس میں کوئی نہ کوئی مشکل یا رکاوٹ سامنے آتی رہی۔ اس ضمن میں گزشتہ سال بھی امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی تھی اور سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا معاہدہ کو قبول کیا تھا، جبکہ اسی درمیان امریکہ کے صدارتی انتخابات ہوئے اور ڈونالڈ ٹرمپ جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اس کے بعد اس سال 20 جنوری کو جو بائیڈن کی جیسے ہی حلف برداری کی تقریب مکمل ہوئی اور امریکہ میں بطور صدر جو بائیڈن کی جانب سے اپنا عہدہ سنبھالا گیا تبھی سے مختلف ماہرین کے ذہنوں میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کو لیکر تذبذب بنا ہوا تھا ۔ دراصل پچھلے کچھ سالوں سے امریکہ کی اقتصادی صورتحال بھی کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے اس کی ایک بڑی وجہ مختلف ممالک میں تعینات اس کی فوج پر آنے والے بھاری بھر کم اخراجات ہیں ۔
اب امریکہ کے حکام بھی کہیں نہ کہیں اس بات کو محسوس کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک جیسے افغانستان ،عراق وغیرہ میں جو محاذ اپنی فوج کو بٹھا کر کھول رکھے ہیں وہ اب اس کے جی کا جنجال بن کر رہ گئے ہیں۔ جتنی جلدی وہ ان محاذ کو اختتام پذیر نہیں کرتے اتنی دیر تک وہ اپنے ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ آج سے قریب تین ساڑھے تین سال قبل جس طرح سے روس افغانستان میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کر رہا تھا بالکل اسی طرح سے امریکہ بھی گزشتہ کچھ سالوں سے افغانستان سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ بالآخر اسی کے سبب صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں افغانستان سے امسال11 ستمبر تک امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کا اعلان کیا ہے ۔ بے شک اس دوران ان کا یہی کہنا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ منتشر ہو چکی ہے اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی اس طویل ترین جنگ کو انجام تک پہنچایا جائے۔
ادھر بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان سے افواج کی واپسی اس وقت عالمی سطح پر درپیش ان مسائل پر نظر رکھنے کے لیے ناگزیر ہے ، جن کا سامنا امریکہ کو دو دہائیوں قبل نہیں تھا۔ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ عسکری طاقت سے افغانستان کے اندرونی سیاسی چیلنجز پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور اس سے افغانستان کے اندرونی تنازعات کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا افغانستان میں فوجی آپریشنز ختم کرنے کے بعد ساری توجہ سفارتی سطح پر امن مذاکرات کی کوششوں کی حمایت پر ہو گی۔اس سے پہلے سابق صدر ڈونالڈٹرمپ نے گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کی حتمی تاریخ یکم مئی مقرر کی گئی تھی۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔اسی بیچ کچھ تجزیہ نگاروں نے اس بات کو لیکر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد مقامی شہریوں کو اس کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ادھر اس ضمن میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے مشاورتی بورڈ کے سابق رکن مائیکل اوہانلن نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام کی طرح بن سکتا ہے جو دہشت گردوں کی مضبوط آماجگاہ ہے جہاں لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور لاکھوں مہاجرین ہیں۔کل ملا کر اگر دیکھا جائے تو امریکہ کو اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز ہیں جہاں اس کا کوئی فیصلہ اس کے مفادات کے آڑے آتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو وہاں سے وہ صاف کنّی کاٹ جاتا ہے۔
دراصل کچھ برسوں سے جس طرح سے چین ایک بڑی اقتصادی قوت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور دنیا میں اپنا دبدبہ بڑھا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کی اقتصادی صورتحال اب کوئی بہتر حالات میں نہیں دکھائی پڑتی اس کے علاوہ گزشتہ برس جس طرح امریکہ کے اندر نسلی فسادات رونما ہوئے اور اس جنوری میں بائیڈن کی حلف برداری تقریب سے قریب دو ہفتے قبل امریکہ کے کیپیٹل ہل میں ٹرمپ حامیوں نے کہرام بپا کیا ان سب حالات کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ کو خود اپنے ملک میں ہی بہت سے کرائسس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ان سب حالات پہ قابو پانے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے اس بات کو امریکہ کے عوام و انتظامیہ بخوبی سمجھتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے امریکی عوام میںبے حد تشویش پائی جا رہی ہے اور اب امریکہ کے حکام بھی کہیں نہ کہیں اس بات کو محسوس کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک جیسے افغانستان ،عراق وغیرہ میں جو محاذ اپنی فوج کو بٹھا کر کھول رکھے ہیں وہ اب اس کے جی کا جنجال بن کر رہ گئے ہیں۔ جتنی جلدی وہ ان محاذ کو اختتام پذیر نہیں کرتے اتنی دیر تک وہ اپنے ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔ افغانستان سے افواج کے انخلا کے فیصلہ کو بھی اسی کڑی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ آخر میں اپنے مضمون کو اقبال کے ان اشعار کے ساتھ ہی اختتام پذیر کروں گا :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
[email protected]