وقت کے فرعون کوخاتون کی للکار کا مطلب؟: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

گزشتہ برس7اکتوبر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں غزہ بُری طرح تباہ اور بربادہوچکا ہے۔ وہاں کی عمارتیں،مساجد، اسپتال اور اسکول ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر اسرائیلی بارود کے نیچے دب چکے ہیں۔ غزہ کا ملبہ ہٹانے میں برسوں لگیں گے۔ ملبے کے نیچے دبے بزرگوں، بچوں،خواتین اورنوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوں گی تو شہدا کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ اپنی آزادی، خودمختاری اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے کوشاں فلسطینی جس خطے میں آباد ہیں،اس کے چاروں طرف اسلامی ممالک ہیں۔وہ اسلامی ممالک،جو بیت المقدس کو اپنا قبلۂ اول تو مانتے ہیں،لیکن اس کی بازیابی کے لیے نہ کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی فلسطین کی حمایت میں کھل کر دو لفظ بول پاتے ہیں۔ ان ممالک کے سربراہان کے اُوپر اسرائیل اور امریکہ کا ایسا خوف طاری ہے کہ انہیںطاقت سے جواب دینا تو دُور، زبان سے کچھ کہنے کی بھی ہمت نہیںرکھتے۔
اسرائیل کی علی الاعلان حمایت اور غزہ پر بمباری کوجائز ٹھہرانے والے امریکی صدر کے انتخابی مہم سے ہٹنے کے بعد انتخابی میدان میں آئیں نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی متوقع اُمیدوار کملا ہیرس نے نیتن یاہوکے ساتھ گفتگو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے اُوپر ہو رہے مصائب پر خاموش نہیں رہ سکتیں۔ایک خاتون کا وقت کے فرعون کے سامنے سینہ سپر ہوکرانسانی درد کا اظہار کرنے کے جرأت مندانہ قدم سے امریکہ کے وہ لوگ ضرور خوش ہوں گے،جو غزہ میں دم توڑتی انسانیت کی بقا کے لیے نیتن یاہو اور اسرائیلی کارروائی کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ 26 جولائی کو واشنگٹن کے وہائٹ ہاؤس کمپلیکس میں کملا ہیرس نے بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کی، حماس کے ساتھ فوری طور پر امن معاہدہ کرنے اور غزہ جنگ کو مستقل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں جاری مصائب پر خاموش نہیں رہیں گی۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے،لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ وہ اپنی حفاظت کیسے کرتا ہے؟اسے امریکہ کی غزہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔جو بائیڈن پردے کے پیچھے سے اسرائیل کے اُو پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کرتے تھے،لیکن کملا ہیرس نے جو بائیڈن کی پالیسی کو حاشیے پر ڈالتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم سے کہا کہ اَب تباہ کن جنگ کو ختم کرنے کا وقت ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ حماس دہشت گرد تنظیم ہے۔ ’7اکتوبر2023کو اُس نے اسرائیل پر حملہ کرکے 44امریکیوں سمیت1200بے گناہ صہیونیوں کو موت کے گھاٹ اُتارکر جنگ کا آغاز کیا اور250لوگوں کو یرغمال بنایا،لیکن گزشتہ9 ماہ کے دوران غزہ میں جوکچھ ہوا،وہ تباہ کن ہے۔کئی معاملات میںجان سے ہاتھ دھونے والے بچوں، مایوس، بھوک سے نڈھال اور پناہ کی تلاش میں بھاگتے اور بعض اوقات دوسری، تیسری اور چوتھی مرتبہ گھر سے بے گھر ہو ئے افراد کی المناک تصاویر ہمارے سامنے ہیں۔ہم ان سانحات سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ان تکالیف کے سامنے اپنے آپ کوبے حس ہونے نہیں دے سکتے۔ میں خاموش نہیں رہوں گی۔‘انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم سے غزہ میں انسانی مصائب کی وسعت،بشمول بہت سے بے گناہ شہریوں کی اموات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔وہاں 20لاکھ سے زیادہ افراد غذائی عدم تحفظ کے زمرے میں ہیں اور 5 لاکھ شہری شدید غذائی عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کو لے کرامریکہ میںلوگ سڑکوں پر ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہوکے امریکہ دورے کے بعد مظاہرین کے احتجاج نے شدت اختیار کی اور ان کے ہوٹل کو گھیر لیا۔مکار یاہو نے وہاں بھی جھوٹ بولنا جاری رکھا۔ امریکی نمائندگان میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ رفاہ کیمپ پر حملوں میں ایک بھی فلسطینی ہلاک نہیں ہوا،جب کہ مئی کے آخر میں وہاں صرف ایک میزائل حملے میںبچوں سمیت45فلسطینی شہید ہوئے۔اس قتل عام کو اقوام متحدہ نے زمین پر جہنم سے تعبیر کیا۔یاہو نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی حملوں میں حماس کے1203جنگجو مارے گئے،لیکن تصدیق نہیں ہوئی۔اس نے40ہزار امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی، لیکن حماس نے امداد چوری کرلی، جب کہ سچ یہ ہے کہ اسرائیل نے جنگ سے قبل غزہ میں داخل ہونے والی امداد کا 20فیصد ہی غزہ میں داخل ہونے دیا۔ اقوام متحدہ غزہ پٹی میں قحط اور غذائی قلت کا اعلان کرچکی ہے۔یاہو نے امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹلیجنس کے حوالے سے ایران پر امریکہ میں اسرائیل مخالف مظاہروں کی فنڈگ کا الزام لگایا، امریکی انٹلیجنس نے اس سے انکار کیا۔یاہو کا دعویٰ کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینی شہریوں کو جان بوجھ کرحملوں کا نشانہ نہیں بنایا، جب کہ جنگ میں تقریباً40ہزار فلسطینی شہید اور غزہ پٹی کے تمام 23لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔انٹلیجنس جائزوں اور اقوام متحدہ کے مطابق غزہ پر گرائے گئے آدھے سے زیادہ بم ’اَن گائیڈیڈ‘ تھے،جن کا مقصد موت،تباہی اور دہشت پھیلانا ہے۔اُس کی خان یونس میں زمینی کارروائی میں کئی لوگ مارے گئے اورتقریباً1.80لاکھ افراد وسطی اور مشرقی خان یونس سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور کناڈا نے غزہ میں جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی عدالت کو جواب دے،جس نے گزشتہ ہفتے فلسطینی علاقوں پر اس کے قبضے اور وہاں آبادکاری کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔اسرائیل کو عالمی برادری کے تحفظات سننے چاہئیں۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت شہریوں کا تحفظ اہم ترین اور ضروری ہے۔فلسطینی شہریوں کو حماس کو شکست دینے کی قیمت ادا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جاری تشدد کی کارروائیوں کے لیے انتہا پسند آبادکاروں سے جواب طلب کرنے، مغربی کنارے میں اپنے آبادکاری پروگرام کو تبدیل کرنے اور دو ریاستی حل کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اُدھر کملا ہیرس کے بدلے لہجے کو فلسطینی حقوق کے وکلا نے ناکافی بتایا، کہا کہ وہ یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سامنے ان کے بیان کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک طرف وہ غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیںتو دوسری طرف امریکہ سے ملنے والی مدد جاری رکھنے کا وعدہ بھی کیا۔امریکہ کی غیرمشروط فوجی اور سفارتی حمایت کی پالیسی میں کسی بامعنی تغیر کے بغیر فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے اظہار کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ اظہار بھر سے غزہ جنگ میں جو بائیڈن کے نقطہ نظر سے ا ختلاف کرنے والے ووٹروں کا ہیرس کے حق میں ووٹ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ غزہ میں بچوں کے قتل کے لیے امریکہ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔امریکہ کااسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ اور اسرائیل کا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر نکالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کچھ بھی کرے،امریکہ ہر حالت میں اس کے ساتھ رہے گا۔اسی لیے اسرائیل، اقوام متحدہ اور کئی ممالک کی اپیل کو درکنار کرکے حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کی ضد پر اڑا ہے۔ روس سمیت کئی ممالک کا ماننا ہے کہ حماس کو ختم کرنا غیر حقیقی اور غیرمنطقی ہے۔ امریکہ کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ اور اسرائیل کو جنگی سازوسامان مہیا کرانا، کسی شخص کے قتل کے بعد اس کے گھروالوں سے ہمدردی کے اظہار جیسا ہے۔اگر امریکہ واقعی جنگ بندی کے حق میں سنجیدہ ہے تو اسے ہر حالت میں اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی فراہمی اور ا مداد روکنی ہوگی۔صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس کااُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،یہ کہنا مشکل ہے، لیکن دوران گفتگوبنجامن نیتن یاہو سے ’غزہ میں فلسطینیوں کے مصائب پر خاموش نہیں رہوں گی‘، جیسا سخت جملہ وقت کے فرعون کو خاتون کی للکار ضرور ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS