یہ سوال اہمیت کا حامل اور جواب طلب ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟ کیا جمہوریت کا مطلب متعینہ وقت پر انتخاب کرا دینا ہے یا کچھ اور بھی ہے؟ اگر متعینہ وقت پر انتخاب کرا دینا ہی جمہوریت کا مطلب ہے تو پھر کیا روس، مصر، لیبیا جیسے ملکوں میں بھی جمہوریت ہے اور اگر ہے تو پھر ان ملکوں میں وقتاً فوقتاً پھوٹ پڑنے والے عوامی مظاہروں سے یہ بات کیوں منکشف ہوتی رہتی ہے کہ ان ملکوں میں الگ طرح کی جمہوریت ہے۔ اسی طرح فرانس اور آسٹریا جیسے یوروپی ملکوں میں نقاب پر پابندی ہے تو کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہاں لوگوں کو مکمل جمہوریت حاصل ہے اور اگر حاصل ہے تو کن لوگوں کو حاصل ہے؟ جو بائیڈن جمہوری طریقے سے ہی امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، پھر ان کی مخالفت یا ٹرمپ کی حمایت میں لوگوں نے کیوں کیپٹل ہل پر حملہ کیا؟ کیا ان کے لیے جمہوری نظام سے زیادہ اہمیت ایک لیڈر ٹرمپ کی تھی؟ اگر فرانس ، آسٹریلیا اور ان یوروپی ملکوں کی طرح جہاں مخصوص مذہبی لباس یا مسجد کی میناروں پر پابندی ہے یا حلال گوشت یا کوشر گوشت پر پابندی عائد کرنے کے لیے بیان بازی کی جاتی ہے تو کیا وہاں کے لیے بھی یہی بات کہی جائے گی کہ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے۔ اگر کہی جائے گی تو پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ کن عوام کے لیے؟ دیکھا جائے تو جمہوریت اور جمہوری نظام بیشتر ملکوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اکثریت کو اپنی طرف کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی سیاست نے جمہوری نظام اور غیر جمہوری نظام کے فرق کو کم کیا ہے۔ کئی بار یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس ملک میں جمہوریت ہے اور کس ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان جمہوریت اور مفاد عامہ کی باتیں کرتے ہیں مگر صدر سے وزیراعظم اور پھر صدر بننے کے ان کے سفر پر نظر ڈالنے پر یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ترکی میں جمہوریت ایک فرد کے پیچھے گھوم رہی ہے۔ ایسا ہی روس میں ہوا، چنانچہ جمہوریت کو انتخابی سرگرمیوں تک محدود کر کے دیکھنا مناسب نہیں۔ انتخابی موسم جمہوریت کے تہوار کی طرح ضرور ہوتیہیں مگر انتخابات سے ہی جمہوری نظام قائم نہیں رہتا، صرف اکثریت کی سیاست کرنے سے جمہوریت زندہ نہیں رہتی، یہ سمجھنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں یا جمہوری نظام کو مستحکم بنانے کے سلسلے میں اگر کوئی اچھا مشورہ کہیں سے ملتا ہے تو اس پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
سبرامنیم سوامی اپنے بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔ وہ اکثر اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں کو نشانہ بناتے ہیں مگر اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں یا پارٹی کے خلاف بولنے سے بھی وہ نہیں جھجکتے۔ کئی بار ان کے بارے میں یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کدھر ہیں مگر سبرامنیم کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ خود کو ایک غیرجانبدار لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تازہ بیان انہوں نے وطن عزیز ہندوستان میں جمہوریت پر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بھارت میں جمہوریت خستہ حال ہے، اسے بہتر بنانے کے لیے ہم نے کچھ خاص کیا بھی نہیں۔‘ اصل میں انہوں نے ٹوئٹ سے اپنی بات کہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’سبرامنیم سوامی نے ایک تصویر شیئر کی ہے مودی سرکار نے ہمارے ملک کی سرحد، جمہوریت اور اقتصادیات کا سودا کیا ہے۔ تصویر میں سب سے اوپر لکھا ہے، جمہوریت کے چار ستون-ایسا میڈیا جو سرکار سے بنا ڈرے سوال کرسکے۔ ایسی عدلیہ جو آئین کو بچا سکے۔ مقننہ رائے دہندگان کے تئیں جواب دہ ہو۔ لوگوں کے ایجنڈے پر کام کر کے اس کو سرکار کے ذریعے نافذ کرنا۔‘ سبرامنیم اگر اتنا ہی لکھتے تو بات الگ ہوتی، آگے انہوں نے لکھ ڈالا، ’ہماری جمہوریت کی موجودہ صورت حال- ہندوستانی میڈیا آزادی کے نام پر 142/180 رینک پر ہے۔ ہندوستانی عدلیہ آزادی پر 69/128 رینک پر ہے۔ بی جے پی نے پوری دنیا میں دوسری پارٹیوں کے سب سے زیادہ ایم ایل ایز خریدے ہیں۔ بھارت آمدنی میں 142/180 اور بھکمری میں 94/107 رینک پر ہے۔ سرکار کے خود کے اعداد و شمار کے مطابق 45 سال میں ملک میں سب سے بڑی بے روزگاری ہے۔‘ان اعداد و شمار سے سبرامنیم سوامی نے ملک کی خستہ جمہوریت کو دکھانے کی کوشش کی ہے مگر انہیں اپنی پارٹی میں جمہوری نظام کی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اتنا کچھ کہہ پاتے ہیں اور پھر بھی بی جے پی کا حصہ ہیں تو یہ بی جے پی میں پارٹی کی سطح پر جمہوریت ہے، پارٹی میں اگر جمہوری نظام نہیں ہوتا تو پھر اتنا بولنے کے بعد کوئی لیڈر پارٹی میں نہیں رہ پاتا۔ حکمراں جماعت جمہوریت کی اہمیت سے واقف ہے، چنانچہ یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام کو بھی مستحکم بنانے کی جدوجہد کرے گی تاکہ سوامی جیسے لیڈروں کو اس سلسلے میں پھر کبھی بولنا نہ پڑے۔
[email protected]
جمہوریت کا مطلب
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS