عارف عزیز
نواسہ رسولؐ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے اہل بیت کی شہادت کا دن ہر سال ہجری تقویم کے اول ماہ کی دسویں تاریخ کو آتا ہے تو اس تاریخ ساز واقعہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس نے اپنے ظہور کے وقت خواہ کوئی طوفان برپا نہ کیا ہو، لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے زمانہ کا پیہہ گھومتا گیا، اس واقعہ کی اہمیت واثرات واضح ہوتے گئے، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ’’شہادت حسین‘‘ کے فکری پہلوئوں کو اپنانے اور حسینی خصوصیات کو اس کے صحیح خدوخال میں سامنے رکھنے کی ضرورت تھی اس ولولہ انگیز کارنامہ کے چاروں طرف جذباتی تقدس اور خرقِ عادت روایات کا ایسا ہالہ بنا دیا گیا ہے جس میں شہادت حسین کا فکری پہلو یا بالفاظ دیگر قربانی کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے حالانکہ اس واقعہ سے بنی نوع انسان کو صبرو استقلال اور ایثار وقربانی کا سبق ہی نہیں ملتا، فکر وعمل اور حق وانصاف کی پاسداری کی تحریک بھی ہوتی ہے۔
شہادت امام حسینؓ میں سب سے بڑا سبق یہ پوشیدہ ہے کہ ظلم کے آگے سرنہ جھکایا جائے اور انسان اپنی خوداری اور شرف کو ظالم کے قدموں میں روندنے کے لئے نہ ڈال دے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ غیر ضروری طور پر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا جائے اور خونریزی سے تحفظ کی کوئی باعزت راہ ہو تو اسے تلاش نہ کیا جائے قتل وغارتگری ، فتنہ وفساد اور ظلم وتشدد اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں، اسلام کا مطلب ہی امن وسلامتی ہے کرۂ ارض پر آباد تمام انسان یہاں تک کہ چرند پرند، حیوان اور چیونٹیوں تک کو اسلام میں امان وپناہ ہے، ہرے بھرے درختوں کی حفاظت، ماحولیات کے رکھ رکھائو اور انسانوں پر عائد انسانوں کے ھقوق کی ادائیگی کا حکم ہے، لیکن اگر ظالم کسی طرح نہ مانے اور اس کی سرکشی حد سے سوا ہوجائے تو پھر اسلام ظلم کے خلاف اٹھنے اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ ایسا نہ کیا جائے تو حق مغلوب اور باطل غالب آجائے گا پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا اسوہ اسی جانب ہماری رہبری کرتا ہے جسے نواسہ رسول نے اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا۔
’’واقعہ کربلا‘‘ کو حق وباطل کے درمیان معرکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو اسلام کی ’’شورائی جمہوریت ‘‘کے تحفظ کے لئے ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑی گئی اس جمہوریت میں مسلمانوں کے خلیفہ یا امیر کا انتخاب عام لوگوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے جس کا جانشینی یا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی بزعم خود یا طاقت کے زور پر خلیفہ اور امیر بن جائے اس نظام نے آج سے چودہ سو برس پہلے سماجی اونچ نیچ اور ادنیٰ واعلیٰ کے امتیاز کو مٹادیا تھا، جرم وسزا میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں تھی، غلطی خواہ امیر کرے یا کسی غریب سے سرزد ہو، شریعت کی نظر میں دونوں کی حیثیت مساوی ہے، اس اسلامی جمہوریت کے طفیل میں نسلی امتیازات اور قبائلی غرور کا خاتمہ ہوا ،ایک دوسرے کے دشمن ہمدرد بن گئے، ان کی تمام تر پسماندگی ترقی میں بدل گئی، اونٹوں کی ریوڑ لے کر ریگستانوں کی خاک چھاننے والے مسلمانوں، ملکوں اور قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے، اس جمہوریت کی بنیاد سب سے پہلے اسلام نے رکھی جسے یزید نے ڈھانے کی کوشش کی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر امت کی اکثریت کا اتفاق تھا مگر حضرت معاویہؓ نے اس سے اختلاف کیا اور شام کی گورنری کو اپنے لئے خلافت کے استحقاق کی بنیاد بنالیا۔ اس کی وجہ سے حضرت علی اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں اسی دوران ایک ملعون ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو شہید کردیا۔ انتقال کے وقت لوگوں نے آپ سے معلوم کیا کہ اپنے بڑے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم انہیں اپنا خلیفہ بنالیں، حضرت علیؓ کا واضح جواب تھا کہ ’’نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں، تم لوگ جو مناسب سمجھو وہی کرنا‘‘ یہ تھی اسلام کی جمہوریت لوگوں کو اتنا دریافت کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی اگر حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں جنگ نہ چل رہی ہوتی جس کا فیصلہ ہوئے بغیر خلیفہ چہارم کی وفات قاتلانہ حملہ سے ہورہی تھی لیکن اس کے برعکس حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو زندگی میں ہی اپنا ولی عہد مقرر کرکے لوگوں سے اس کے لئے بیعت لینا شروع کردی۔ اسلام میں یہ پہلی بدعت تھی کہ ’’جمہوریت کی جگہ ملوکیت‘‘ لے رہی تھی۔
حضرت حسینؓ نے بھی اپنے والد ماجد کی پیروی کرتے ہوئے خلافت کے واسطے کوئی دعویٰ پیش نہیں کیا ،نہ یہ کہا کہ میرے والد خلیفہ تھے لہذا مجھے ان کا وارث سمجھا جائے بلکہ ہوا یہ کہ کوفے کے لوگوں نے حضرت امام حسینؓ کو بار بار یزید کی مطلق العنانی اور حدودِ اسلامی سے سرتابی کی طرف متوجہ کیا اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے نانا کے دین کو بچانے اور ہماری مدد کرنے کو آئیں تو ہم آپ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیں گے لیکن کوفے کے قریب پہونچنے پر آپ کو یہ خبر ملی کہ اہل کوفہ کی رائے بدل گئی اور وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے ہیں تو ایک سچے جمہوریت پسند کی حیثیت سے آپ نے اس مہم سے کنارہ کشی اختیار کرلی تب یزیدی لشکر نے آپ کو گھیر لیا اور میدان کربلا میں آپ نے محصور ہوجانا گوارہ کیا لیکن خود کو ایک غیر شرعی حکومت کے سپرد نہ کیا بلکہ مصالحت کی نہایت موزوں اور عزت نفس کی حامل تین شرطیں پیش کیں اول میں مدینہ واپس چلا جاتا ہوں، یہ منظو رنہیں تو میں جہاد میں حصہ لینے کے لئے سرحد کی طرف نکل جاتا ہوں، یہ بھی قبول نہیں تو میرا راستہ چھوڑ دو اور مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ اس سے مل کر میں اپنا معاملہ خود طے کرلوں، مگر یزید کے لشکر نے مصالحت کی ان تینوں شرطوں کو نہ مانا تو نواسۂ رسول اور آپ کے اہل خاندان نیزجاں نثاروں نے بے سروسامانی کی حالت میں اس طرح دادِ شجاعت دی جو ہمیشہ ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کا حوصلہ بڑھاتی رہے گی۔ حضرت امام حسین یہ جانتے تھے کہ لشکر یزید سے مقابلہ کا نتیجہ کیا ہوگا ایک طرف مٹھی بھر نفوس اور دوسری جانب ہزاروں کا لشکر جرار جو خون بہانے اور جان لینے کو بے تاب تھا ۔ حضرت امام حسینؓ نے جنگ میں پہل نہیںکی اور یہ جنگ تھی ہی کب؟ جنگ دو فوجوں کے درمیان ہوا کرتی ہے نواسۂ رسولؐ کے پاس فوج کہاں تھی؟ اہل خاندان، بچے ، مستورات اور چند جاں نثار تھے معاملہ صرف جارحیت کے مقابلہ میں اپنے دفاع کا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے یاس وپریشانی اور بھوک وپیاس کے عالم میں بہترین دفاع فرمایا۔
حضرت امام حسینؓ کی میدان کربلا میں صف آرائی درحقیقت اسلام کے مزاج میں تغیروتبدل کے خلاف ایک ایسی مزاحمت تھی جو رہتی دنیا تک حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتی رہے گی آزادی ضمیر، آزادی فکر اور اختلافِ رائے کا حق آج کے جمہوری دور کا ایک امتیاز ہے جس کو چھیننے والی حکومت کبھی جمہوری قرار نہیں پاسکتی۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی حکومت اور اقتدار کے مطالبہ بیعت کو ٹھکرا کر رہتی دنیا تک اپنے عمل وکردار سے یہ سبق دے دیا کہ جبر کی بنیاد پر کسی سے کوئی مطالبہ وفاداری باطل ہے اور اس جبر واستبداد کا مقابلہ اس عزیمت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ ’سر کٹ جائے مگر جھکے نہیں‘ معاشی نظام کے متوازن ہونے کا تصور موجودہ عہد کی بیشتر حکومتوں کا ایک موثر حربہ ہے شخصی نظام ہو یا آمریت اس میں معاشی عدم توازن اور طبقاتی اونچ نیچ ضرور پیدا ہوجاتی ہے، جمہوریت میں بھی عموماً یہ خرابی در آتی ہے کہ برسراقتدار گروہ دولت ووسائل پر حاوی ہوجاتا ہے حضرت حسین ابن علیؓ نے جب مطالبہ بیعت کو ٹھکرایا تو منجملہ دیگر باتوں کے یہ بھی فرمایا جس کا مفہوم تھا کہ ’’حکومت مال مسکین پر قابض ومتصرف ہے جو جائز نہیں‘‘ اس بلیغ فقرہ سے اسلام میں دولت کے تصور تقسیم پر روشنی پڑتی ہے جو جمع ہونا نہیں تقسیم ہونا ہے، کسی کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے مال پر قابض ومتصرف ہوجائے عوام کی دولت عوام میں ہی تقسیم ہونا چاہئے یہی نعرہ آج کی نام نہاد فلاحی مملکتیں بھی بلند کررہی ہیں لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کے لشکر میں عرب وعجم کی تخصیص اور قبائلی عصبیت کا عمل دخل نہ تھا لشکر کے میمنہ یا میسرہ کے سردار حضرت زہیر ابن قین تھے جو اس دور کی سیاسی اصطلاح میں ’’عثمانی‘‘ تھے یعنی حضرت حسینؓ نے ہر طبقہ اور خیال کے افراد کو ایک مرکز پر جمع کرکے یہ ثابت کردیا کہ جب اعلیٰ اصول اور بلند اقدار اور بنیادی نظریات کا سوال آجائے تو جزوی اختلافات کو دور کردینا چاہئے اور حق وسچائی، دین وملت کی حفاظت اس میں سب سے زیادہ اہم ہے۔
’’واقعہ کربلا‘‘ اقوام عالم کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جنگ وتشدد میں اپنی طرف سے پہل نہ کرو کیونکہ حضرت حسینؓ نے آخر وقت تک جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی اور لشکر یزید کو پندونصیحت فرماتے رہے، اسی طرح حسینی کارنامہ دنیا کے کچلے ہوئے عوام کا خون کھولا دینے اور مردہ ذہنیت میں حرارت و دلیری کی روح پھونک دینے کے لئے کافی ہے جیسا کہ میدان کربلا کے خطاب میں آپ نے فرمایا۔
’’دیکھو لوگوں ! زندگی کی ذلت اور قتل ہوجانا دونوں ہی ناگوار عمل ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بغیر چارہ نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ بہتر یہی ہے کہ موت کی طرف قدم بڑھا دیا جائے‘‘۔
آج کی دنیا جو نظر سے محروم اور نظریات میں گرفتار ہے جب خالص مادی بنیادوں پر شہادت حسین کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ کتابوں کے صفحات پر کچھ لکھ دینا الگ بات ہے اور اپنے عمل وکردار سے کتابِ دل پر خون کی سرخی سے عنوانِ حیات رقم کرنا قطعی دوسری بات ہے یہی کارنامہ حضرت امام حسینؓ نے انجام دیا ہے۔
[email protected]
ظلم کے آگے سر نہ جھکانا، شہادتِ امام حسینؓ کا سبق ہے: عارف عزیز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS