مولانا محمد قمرالزماں ندوی،جھارکھنڈ
یومِ عاشورہ، تاریخ کا ایک بے حد اہم شہادتِ حسینؓ کا واقعہ بھی اسی دن سے وابستہ ہے۔ حضرت حسین ؓ نے خلافت کی بقا اور اس کو علی منھاج النبوہ باقی رکھنے، احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے اپنی جان راہ خدا میں قربان کر دی اور شھادت کا عظیم الشان تمغہ اور تحفہ لے کر خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ حضرت حسین ؓ نے یہ باور کرادیا کہ :
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
حضرت حسین ؓنے عاشورہ کی تاریخ میں امت کو یہ سبق دیا اور مستقبل میں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اللہ کا مخلص اور پکا بندہ وہ ہے جو چڑھتے سورج کا پجاری نہ بنے۔ نفاق اور دو رخا پن سے پاک ہو۔ دنیا اور متاع دنیا کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت و اہمیت نہ ہو ۔ خدا کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی پر راضی نہ ہو۔ مداہنت، چاپلوسی اور نفاق و منافقت سے پاک ہو۔ جس کا مطمح نظر صرف اور صرف اعلاء کلمۃ اللہ ہواور جس کی سوچ یہ ہو کہ:
توحید تو ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
شہادتِ حسین ؓ اسلامی تاریخ کا ایسا درد ناک حادثہ ہے کہ قیامت تک امت مسلمہ اس کا صدمہ سہتی رہے گی۔ مسلمانوں کے لئے رسولؐ کے بعد اہل بیت رسولؐ اور افراد خاندان رسول سے محبت محض جذباتی معاملہ نہیں ہے، عقیدہ و ایمان کا معاملہ ہے۔ اس پاکیزہ خاندان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی خاندان پاکیزہ نہیں ہے۔ اس عظیم خاندان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی خاندان عظیم نہیں ہے۔ اس خاندان کے سربراہ محسن انسانیت حضرت محمدؐ ہیں۔ اس خاندان یعنی آپ ؐکے اہل خانہ ازواج مطہرات اولاد و احفاد کی پاکیزگی کے سلسلے میں خود قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ’’اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے‘‘(الاحزاب33-)۔ ان پاکیزہ اور برگزیدہ افراد خاندان کو اپنی جگہ بطور نمونہ چھوڑ کر رسولؐ دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا’’ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور اپنا خاندان‘‘( مسلم شریف)۔
حضرات حسنین ؓسے آنحضرتؐ کس قدر محبت فرماتے تھے اس سلسلے کی تفصیلات احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ان تفصیلات سے ہٹ کر ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں اور سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ذرا یہ بتائیں کہ حضرت حسینؓ نے جنگ کا فیصلہ کیوں کیا، کس چیز کے لیے جان دے دی اور کس مقصد کے لیے جام شہادت نوش فرمای؟۔ صرف مقصد یہ تھا کہ خلافت اللہ کی امانت ہے اس کا تعلق وراثت سے نہیں ہے، اس کا تعلق استحقاق سے ہے۔ یہ رسولؐ کی سنت نہیں ہے۔ مسلمانوں کی خلافت کا حق دار وہ ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ صالح اور پرہیزگار ہے ’’بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے‘‘(الانبیا105-)۔ حضرت حسینؓ نے جس کو خلافت کے مستحق نہیں سمجھا اس سے جنگ کی تاکہ لوگوں کو بتادیں کہ انسان کو چڑھتے سورج کا پجاری نہیں ہونا چاہیے،حق کا اور سچائی کا طرف دار ہونا چاہیے چاہے حق اور سچائی کی خاطر جان چلی جائے۔ جان و مال اور درہم و دینار سب لٹ جائے یہ سب گوارہ ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت اسلام کو زندہ و تابندہ کرتی ہے ، شریعت حقہ کو زندہ اور درخشاں رکھنے کی انقلابی تحریک تھی، اسلام کے ہر دور اور ہر عہد میں اس تحریک کے علم بردار اور حق گو پیدا ہوتے رہیں گے۔
حضرت حسین ؓ کی قربانی، شہادت اور اسوہ ہم سب کے لیے نمونہ ہے اور اس کو ماننا، حق سمجھنا اور اس کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہر زمانہ میں نقشِ حسین ؓکی اتباع جو در اصل نقش رسولؐ کی اتباع ہے، اس کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
مصلحت اندیش اور مصلحت پرست لوگ یہ کہہ سکتے ہیں اور عقل پرست اور ظاہر پرست لوگ یہ باور کراسکتے ہیں کہ مٹھی بھر فوج کو یزید کے لشکر جرار سے ٹکرانے کی ضرورت کیا تھی؟ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کی ضرورت کیا تھی؟ مگر جو لوگ حق کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیارے آقاؐ کی شریعت اور سنت مطہرہ کو مسخ ہونے اور مغلوب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خلافت متقیوں اور پرہیزگار افراد کے ہاتھوں میں رہے، اسلام اور حکومت کی باغ ڈور وہ لوگ سنبھالیں اور زمام اقتدار ان کے پاس ہو جن کے اندر خوف خدا اور صلاحیت اور صالحیت بھی ہو، وہ جانتے ہیں کہ حق کے متبعین اور طرف دار ہر دور میں کم رہے ہیں۔ مگر ہر زمانہ میں صاحب عزیمت اور حق پرست لوگ اٹھتے رہتے ہیں اور حق و باطل کے فرق کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ حضرت حسین ؓ کی قربانی، شہادت اور اسوہ ہم سب کے لیے نمونہ ہے اور اس کو ماننا، حق سمجھنا اور اس کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہر زمانہ میں نقشِ حسین ؓکی اتباع جو در اصل نقش رسولؐ کی اتباع ہے، اس کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ حضرت حسین ؓکی شہادت خصوصی مرتبہ کی حامل ہے اور امت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ:
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادیٔ حیات کا یہ ہے سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
q qq