’کٹھ ملائوں‘ کی فہرست طویل ہے یوگی جی!

0

صبیح احمد

اردو اور ہندی بہنیں ہیں۔ سگی ہی نہیں بلکہ جڑواں بہنیں ہیں۔ ایک ہی فضا میں سانسیں لے کر ایک ساتھ پروان چڑھی ہیں۔ دونوں زبانیں ایک ہی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہیں۔ اور وہ ماں ہے ہندوستانی۔ وہی ہندوستانی جسے گاندھی جی ملک کی قومی زبان بنانے کی ہمیشہ وکالت کرتے رہے۔ کاش! گاندھی جی کی بات سنی جاتی تو یہ زبان کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہوتا۔ دونوں زبانوں کا مخزن ایک ہی ہے اور وہ ہے عوام الناس کی مقامی عام بول چال کی زبان ’ہندوستانی‘، جس میں برج، کھری، اودھی، دکنی اور دیگر مقامی بولیاں شامل ہیں۔ فرق صرف رسم الخط کا ہے۔ بلا شبہ اس میں آریائی زبانوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ آریائی زبانوں اور مقامی بولیوں کے امتزاج سے جس زبان نے جنم لیا، وہ درحقیقت نہ تو اردو تھی اور نہ ہی ہندی بلکہ وہ ’ہندوستانی‘ زبان تھی۔ گردش زمانہ نے اس زبان کو دو حصوں میں منقسم کر دیا، نتیجتاً ایک اردو اور دوسری ہندی کی شکل میں وجود میں آئی۔ اردو میں عربی و فارسی اور ہندی میں سنسکرت الفاظ کی ’دراندازیاں‘ ختم ہوجائیں تو دونوں زبانوں کو پہچاننا مشکل ہوجائے کہ اردو کون ہے اور ہندی کون۔ اس لیے ہندی جتنی ہندوستانی زبان ہے، اردو بھی اتنی ہی ہندوستانی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مٹھاس، چاشنی اور دلکشی میں اردو 2 قدم آگے ہے تو بے جانہ ہوگا۔ یہی خوبیاں ہیں جن کی بدولت کسی قسم کی سرپرستی کے بغیر اور دہائیوں سے چہار طرفہ حملوں کے باوجود اردو آج بھی عوام الناس کی زبان بن کر سب کے دلوں پر راج کر رہی ہے۔ قانون سے لے کر انصاف کے ایوانوں تک، عام بول چال، میلوں ٹھیلوں میں کوئی بھی جگہ یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں آج بھی اپنے مافی الضمیرکی خوش اسلوبی سے ادائیگی کے لیے اردو کی لطافت کا سہارا نہ لیا جاتا ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے، اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ لیکن تنگ نظری اور تعصب کی انتہا یہ ہے کہ کچھ لوگ حقیقت سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

اردو کے ایک اہم دبستان لکھنؤ میں جمہوریت کے اعلیٰ ترین ایوان قانون ساز اسمبلی میں ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کے حوالے سے جو زہر افشانی کی ہے، اسے ان کی غلط فہمی یا لا علمی کہا جائے یا سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک نیا بیانیہ؟ یوگی جی کو غلط فہمی تو نہیں، لاعلمی کے شک کا فائدہ دیا جاسکتا ہے! زبانوں سے ان کا کتنا شغف رہا ہے اور زبانوں خاص طور پر ہندی اور اردو کی ابتدا و ارتقا اور تاریخ سے وہ کتنی واقفیت رکھتے ہیں، نہیں معلوم۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ خاص طور پر ملک کی آزادی کے بعد لسانی تعصب کا جو بیانیہ عام کیا گیا اس سے وہ خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ یوگی نے بجٹ اجلاس کے دوران سماجوادی پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھائیں گے اور دوسروں کے بچوں کے لیے کہیں گے کہ اردو پڑھاؤ، انہیں مُلّا بناؤ، کٹھ مُلّاپن کی طرف ملک کو لے جانا چاہتے ہیں!‘ حالانکہ وہ اپوزیشن پارٹی کو دوسرے طریقے سے بھی نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ان کی سیاست اور انتہا پسند نظریے سے یہی بیانیہ مطابقت رکھتا تھا۔ اور انہوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یوگی جی نے بعد میں اپنے بیان کی وضاحت یوں پیش کی تھی کہ وہ دراصل مخصوص طبقہ کے بچوں کو ’سائنسداں‘ بنانے کے حق میں ہیں۔ تو کیا جو لوگ اردو نہیں پڑھتے لکھتے ہیں وہ سبھی سائنسداں ہی ہوتے ہیں؟ ویسے تو یوگی جی بھی اردو نہیں پڑھے ہیں! کیا اردو کے نامور ادیب و شاعر کرشن چندر، منشی پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، فراق گورکھپوری ’کٹھ ملا‘ ہیں؟ کیا کلدیپ نیر، اندر کمار گجرال، ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسی عظیم ہستیوں اور دانشوروں کو ’کٹھ ملا‘ کہا جائے گا، کیونکہ وہ اردو پڑھتے، لکھتے اور بولتے تھے۔ آخر انہیں کون سمجھائے کہ ہندوستان کی عوامی زبان اردو کی پیدائش اور اس کی ترقی و ترویج میں ہندوؤں کا کسی بھی طرح مسلمانوں سے کم حصہ نہیں رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی آبیاری اور حفاظت اردو نے زیادہ کی ہے۔ شاید کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اردو ہندو تہذیب و ثقافت کا بھی اچھا خاصہ سرمایہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

اردو صرف مسلمانوں کی زبان کبھی نہیں رہی بلکہ روز اول سے اس کے فروغ میں ہندو دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کا بھی برابر کا حصہ رہا ہے۔ ہندوستان کا پہلا اردو اخبار ’جہاں نما‘ 1822 میں ہری ہردت نے نکالا تھا۔ اسی طرح لکھنؤ سے ’اودھ اخبار‘ بھی ایک ہندو شخصیت منشی نول کشور نے 1858 میں شائع کیا۔ جب ہم حالیہ برسوں میں اردو اور ہندی کے تنازع کے اس ناخوشگوار مرحلے پر غور کرتے ہیں تو یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہندوؤںنے کبھی بھی اردو زبان میں دلچسپی لی ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوؤں کی اردو تحریریں ختم کر دی جائیں تو اردو ادب کا ذخیرہ نامکمل ہوجائے گا۔ کسی زبان میں کام کو 2 عنوانات کے تحت درجہ بند کیا جا سکتا ہے: اول، تاریخ، فلسفہ، ریاضی وغیرہ جیسے سنجیدہ اور سائنسی مضامین پر کتابیں جو بعض مسائل پر وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور دوم، ناول، ڈرامے وغیرہ۔ اردو ادب کے ان دونوں زمروں میں ہندو ادیبوں کی خدمات کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ جب تک اردو ناول پڑھے جائیں گے سرشار کا نام زندہ جاوید رہے گا۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کے افسانے آزاد، سیر کہسار، جام سرشار وغیرہ اردو کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہندوؤں نے اتنی کثرت سے لکھا ہے کہ ان کی تحریروں کا جامع حوالہ دینا ناممکن ہے۔ ان میں سے کچھ قدیم ہیں اور اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور سے متعلق ہیں۔ اردو ناول نگاروں کا ایک گزرتا ہوا حوالہ بھی منشی جوالا پرساد برق کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوگا۔ یہ دونوں بہترین وضاحتی مصنّفین ہیں اور ان کی تصانیف کی خوش کن بات یہ ہے کہ انہوں نے خود ہندوئوں کی بہ نسبت مسلم خاندانوں کے رہن سہن، رسوم و رواج، عادات و اطوار کو زیادہ شاندار انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندوؤں میں ایک بہترین مزاح نگار پنڈت تربھون ناتھ اجیر تھے۔ اس مصنف کے مضامین نے ’اودھ پنچ‘ کی شہرت میں کافی اضافہ کیا۔

کسی زبان کی کوالٹی اور معیار کا اندازہ اس زبان میں جاری ہونے والے جرائد اور اخبارات کی تعداد سے بھی لگایا جاتا ہے۔ ’متحدہ صوبوں‘ میں ’اودھ اخبار‘ اردو کا سب سے پرانا اخبار ہے، جو ایک ہندو کی ملکیت تھی اور زیادہ تر ہندو ایڈیٹرس ہی اس کی تدوین کرتے تھے۔ اس صوبے کا دوسرا قدیم ترین اخبار ’ہندوستانی‘ تھا، جو ہمیشہ ہندوؤں کی ملکیت رہا اور اس کے ایڈیٹر ہندو ہی رہے۔ پنجاب کا سب سے پرانا اردو اخبار ’اخبار عام‘ ہے جس کے مالک ایک ہندو تھے۔ وسیع پیمانے پر فروخت ہونے والے اخبار ہندوستان، دیش، پرتاپ اور ملاپ بھی ہندو چلاتے ہیں۔ گنگا پرساد ورما، دوارکا پرساد افق، دینا ناتھ حافظ آبادی، منشی جلپا پرساد، صوفی امبا پرساد نے صحافت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ جہاں تک ہندوؤں کے زیر انتظام ماہانہ رسائل کا تعلق ہے، الٰہ آباد کے ادیب(اب معدوم)، کھڑنگے نظر (لکھنؤ) اور زمانہ (کانپور) نے بھی اردو کی اچھی خدمات انجام دی ہیں۔ اس سلسلے میں منشی نوبت رائے نظر اور منشی دیانارائن نگم کے شکر گزاری کے قرض کو تسلیم نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ ہندو مصنّفین نے صرف ہلکے پھلکے ادب پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ سنجیدہ اور ادبی موضوعات پر معیاری کام کیے ہیں اور سائنس و فنون پر بے شمار ترجمے اور تالیفات کی ہیں۔ فلسفہ، منطق، ریاضی اور سائنس پر بھی ہندومصنّفین کی کتابوں اور تراجم کی ایک طویل فہرست ہے۔

ادب کی تاریخ ایک الگ موضوع ہے۔ اس صف میں بھی ہندو پیچھے نظر نہیں آتے۔ اردو زبان کی تاریخ کی اہمیت کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔ دہلی کے ایک نامور مصنف بابو چرنجی لال نے 1884 میں اس موضوع پر ایک کتاب شائع کی تھی۔ یہ ایک مختصر مقالہ ہے، لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ مفید، معلومات سے بھرپور اور مستقبل کے مرتب کرنے والوں کے لیے ایک حوالہ کی کتاب کے طور پر ناگزیر ہے۔ 1887 میں منشی دیبی پرساد بشاش نے ایک کتاب ’ اسر شرعی ہنود‘ شائع کی جو 6 یا 7 سو ہندو شاعروں کی اردو نظموں کا مجموعہ تھا اور اس مجموعہ میں ان کی تحریروں کے نمونے بھی شامل کیے گئے تھے۔ اس طرح اردو کے ہندو خدمت گاروں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا یہاں مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ اردو پر صرف مسلمانوں کی اجارہ داری کا تصور کتنی بڑی غلط فہمی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ان کی مادری زبان ہے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک بہت ہی شاندار زبان اور اس کے ادب کی تشکیل اور اس کی نشوونما میں ہندوؤں کا بھی برابر کا حصہ ہے۔کیا یہ سبھی ’کٹھ ملا‘ تھے؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS