محمد کلیم الدین مصباحی
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ،دوسرا عشرہ مغفرت اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے (شعب ایمان)۔
عنقریب ہم ماہ رمضان کے آخری عشرے میں داخل ہونے والے ہیں ۔رمضان المبارک کا آخری عشرہ کئی اعتبار سے دیگر اور عشروں سے ممتاز ہے ۔اسی عشرہ کی طاق راتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے’’ شب قدر‘‘ کو پوشیدہ رکھا ہے جس میں ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔اسی عشرہ میں اعتکاف جیسی عظیم سنت کو ادا کیا جاتا ہے ۔
اعتکاف:اعتکاف کا لفظی معنی ہے’’ دھرنا مار کر بیٹھنا ‘‘یعنی اعتکاف میں بیٹھنے والے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے رازی ہو جائے اور وہ ہمیشہ اپنے رب کی رضا کا متلاشی رہتا ہے۔اور اصطلاح شرع میں’’ مسجد میں اللہ تعالی کی رضاکے لئے بہ نیت اعتکاف ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے ‘‘۔اس کے لئے مسلمان کا عاقل اور عورتوں کا حیض ونفاس اور جنابت سے پاک ہونا شرط ہے ۔بالغ ہونا شرط نہیں نا بالغ اگر احترام مسجد سے واقف ہے وہ بیٹھ سکتا ہے۔ (عالمگیری،بہار شریعت )
اعتکاف کرنے والا حالت اعتکاف میں بہت سارے گناہ سے
بچتا ہے جیسے جھوٹ،غیبت،چغلی ،بری بات سننے اور برا
کام کرنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے ۔البتہ وہ اعتکاف
کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کر سکتا مثلا بیمار کی عیادت،
ماں باپ ،اہل وعیال کی دیکھ بھال ،یا اس طرح کی اور نیکیا
جو وہ کرتا تھا ،اب اگر چہ وہ نہیں کرتا مگر اللہ تعالی اس کو
کرنے والے کی طرح اس کا اجرو ثواب عطا فرماتا ہے ۔کیونکہ
وہ اللہ کے پیارے رسول ؐ کی سنت ادا کر رہا ہے جو در
حقیقت اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری ہے ۔
اعتکاف قرآن میں:امم سابقہ میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، ارشاد باری تعالی ہے ’’اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم اور اسماعیل کو کہ میراگھر خوب ستھرا کروطواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے ‘‘(سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۲۵)۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعتکاف عبادت ہے اور پچھلی امتوں میں بھی یہ عبادت رائج تھی۔
اعتکاف کی قسمیں ۔اعتکاف کی تین قسمیں ہیں ۔
(۱) واجب ،نذر کا اعتکاف یعنی زبان سے نذر مانی کہ میں اللہ تعالی کے لئے فلان دن یا اتنے دن کا اعتکاف کروں گا ۔اب جتنے دن بھی کہا ہے اتنے دن کا اعتکاف واجب ہے ۔اور اس کا خیا ل رہے کہ اس اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے ۔
(۲)سنت ،رمضان المبارک کے ٓاخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلے میں سے ایک نے بھی کر لیا تو سب بری ہو جائیں گے اور کسی نے بھی نہیں کیا تو سب گنہگار ہوں گے ۔اس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ معتکف رمضان کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے بہ نیت اعتکاف مسجد میں موجود ہوں۔ ( ۳) نفل،نذر اور سنت مؤکدہ کے علاوہ جو اعتکاف ہے وہ نفل ہے ۔اس کے لئے نہ روزہ شرط ہے اور نہیں کسی وقت کی قید بلکہ جب بھی وہ مسجد جائے اعتکاف کی نیت کر لے ،جب تک مسجد میں رہے گا کچھ پڑھے یا نہ پڑھے اس کو ثواب ملتا رہے گا اور جب باہر آ جائے گا اعتکاف ختم ہوجائے گا ۔(بہار شریعت حصہ پنجم )
اعتکاف کا مقصد: اعتکاف کا مقصد اصلی شب قدر کی تلاش ہے جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ’’ شب قدر کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاشہ کرو ‘‘اس حدیث سے پتہ چلا کے شب قدر بدلتی رہتی ہے کبھی اکیسویں ،کبھی تئیسویں ،کبھی پچیسویں ،کبھی ستائیسویں،کبھی انتیسویں شب ہوتی ہے ،مسلمانوں کو شب قدر کی سعادتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے آخری عشرہ کے اعتکاف کی ترغیب دلائی گئی ۔
سیدنا حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے ’’نبی کریمؐ نے ایک بار یکم رمضان المبارک سے بیس رمضان تک کا اعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:میں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لئے رمضان کے پہلے اور درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتا یا گیا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے لہذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ کرلے‘‘(صحیح مسلم )۔ اس حدیث سے بھی اعتکاف کا مقصد واضح ہوتا ہے ۔
فضلیت اعتکاف: حضور ؐ نے اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ۔جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے ۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے ،یہاں تک کے آپ کا وصال ہو گیا ۔پھر آپ کی ازوج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں (بخاری ومسلم ) ۔
دو حج اور دو عمرے کا ثواب: حضرت امام حسین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :جس شخص نے رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کا اعتکا ف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے کئے ۔(شعب ایمان )
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیؐ نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا :وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں ،اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو ۔(سنن ابن ماجہ ،مشکوۃ)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کرنے والا حالت اعتکاف میں بہت سارے گناہ سے بچتا ہے جیسے جھوٹ،غیبت،چغلی ،بری بات سننے اور برا کام کرنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے ۔البتہ وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کر سکتا مثلا بیمار کی عیادت ،ماں باپ ،اہل وعیال کی دیکھ بھال ،یا اس طرح کی اور نیکیا جو وہ کرتا تھا ،اب اگر چہ وہ نہیں کرتا مگر اللہ تعالی اس کو کرنے والے کی طرح اس کا اجرو ثواب عطا فرماتا ہے ۔کیونکہ وہ اللہ کے پیارے رسول ؐ کی سنت ادا کر رہا ہے جو در حقیقت اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری ہے ۔ اعتکاف سے متعلق دیگر اور مسائل اپنے محلے کے امام یا علماء کرام سے مل کر معلوم کریں۔اللہ کریم ہمیں اس سنت نبوی ؐ کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
رمضان المبارک کے ٓاخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلے میں سے ایک نے بھی کر لیا تو سب بری ہو جائیں گے اور کسی نے بھی نہیں کیا تو سب گنہگار ہوں گے ۔اس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ معتکف رمضان کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے بہ نیت اعتکاف مسجد میں موجود ہوں۔ ( ۳) نفل،نذر اور سنت مؤکدہ کے علاوہ جو اعتکاف ہے وہ نفل ہے ۔اس کے لئے نہ روزہ شرط ہے اور نہیں کسی وقت کی قید بلکہ جب بھی وہ مسجد جائے اعتکاف کی نیت کر لے ،جب تک مسجد میں رہے گا کچھ پڑھے یا نہ پڑھے اس کو ثواب ملتا رہے گا اور جب باہر آ جائے گا اعتکاف ختم ہوجائے گا ۔
اعتکاف کرنے والوں سے چند گزارشات:معتکفین سے گذارش ہے کہ وہ مسجد کے ادب واحترام کا خاص خیال رکھیں ،زورزور سے چلا چلا کر بات نہ کریں ،اپنا زیادہ وقت عبادات میں گذاریں ،اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ ہوکر اللہ سے سچی توبہ کریں ،اپنی فوت شدہ نمازوں کو ادا کریں ،قرآن کریم کی تفسیر کے ساتھ تلاوت کرنے کی کوشش کریں ۔اس سنت نبویؐ کے ذریعے اپنی ظاہری اور باطنی زندگی میں بدلائو لانے کی کوشش کریں ۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔آمین
شب قدر: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ’’شب قدر ‘‘ کہلاتی ہے جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے ۔وہ انسان بڑا خوش نصیب ہے جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے ۔جس رات میں اللہ نے قرآن حکیم کو نازل فرمایا ،جس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ،جس رات میں اللہ کے فرشتے اللہ کی طرف سے (اس رات عبادت کرنے والوں کے لئے) مغفرت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں طلوع فجر تک جس کا ذکر اللہ کریم نے سورہ قدر میں اس طرح فرمایا ہے ’’بیشک ہم نے اسے (قراآن کو )شب قدر میں نازل فرمایا ۔اور تم نے کیا جانا کیا (ہے) شب قدر ۔شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے)اس میں فرشتے اور جبرئیل (علیہ السلام ) اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے ۔وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک‘‘( القدر )۔
شب قدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میں ۔
٭۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ،رسول گرامی وقارؐ نے فرمایا ’’جس نے اس رات میں ایمان واخلاص کے ساتھ شب بیداری کر کے عبادت کی تو اللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہ (صغیرہ ) کو معاف فرمادیتا ہے ‘‘(صحیح البخاری، کتاب الایمان ،باب قیام لیلۃ القدر من الایمان)۔
٭۔حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب ماہ رمضان آیا تو حضور سرور کائنات ؐ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الصیام،باب ماجاء فی فضل رمضان )
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اس رات کو لہو لعب اور بیکار گزارنے کے بجائے عبادات الہی میں گزارے ۔اس رات میں کثرت سے استغفار کرے ۔اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں یہ بتایا کہ ہم اس رات کو کیسے گزاریں ۔جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ مجھے معلوم ہو جائے کہ شب قدر کون سی رات ہے تو اس رات میں مَیں کیا کہوں ؟ تو اللہ کے نبیؐ نے ارشاد فرمایا :تم کہو’’اے اللہ!بیشک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، تو میرے گناہوں کو معاف فرمادے‘‘(ترمذی،کتاب الدعوات)َ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں’’اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تومیں اس رات میں یہ دعا بکثرت مانگوں گی ’’اے اللہ میں تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الدعائ)۔اللہ ہم سب کواس ماہ مقدس اور شب قدر کی برکتیں اور رحمتیں عطا فرمائے۔ آمین luq
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click: https://bit.ly/37tSUNC