عبدالماجد نظامی
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے حق و باطل کے درمیان مسلسل جاری رہنے والی کشمکش کی تصویر کشی اس انداز میں اپنے کلام کے اندر کی تھی کہ اردو ادب میں ان کا وہ خاص شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ میرا اشارہ اس شعر کی طرف ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
یہ اسلام کا وہ ابدی پیغام تھا جس کو دے کر اللہ پاک نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا۔ اس کا مقصد صدیوں سے کفر و الحاد کی ظلمت میں بھٹکتی انسانیت کو حق کی روشنی کی طرف لانا تھا۔ جب رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت یہ پیغام لے کر اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے تو بجائے اس کے کہ اس پیغام کا استقبال کیا جاتا اور خدا کی رحمت پر شکر گزار ہوکر سربسجود ہوجاتے، اس کے مخالفین پیدا ہوگئے اور اس ابدی پیغام کے پہلے خطاب کی پر زور مخالفت کرنے والا ابولہب کفر و الحاد کی ظلمت کی نمائندگی کرنے والا وہ شخص بن گیا جس کا ذکر ہمیشہ تاریکی و گمراہی کی علامت کے طور پر کیا جاتا رہے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حق و انصاف اور محبت و رحمت و عبودیت الٰہی کی جس دعوت کو روکنے کے لیے جن لوگوں نے یہ کوشش کی تھی ان کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹ گیا لیکن وہ پیغام جس کے لیے اللہ پاک نے پھیلنا مقدر کر دیا تھا وہ نہ صرف زندہ رہا بلکہ کرۂ ارضی پر صدیوں تک اس طرح راج کرتا رہا کہ اس کی کرنیں آج بھی مدھم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوسکی ہیں بلکہ اس کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کا درجۂ حرارت بڑھانے کی جس قدر کوششیں ظلمت کے علمبرداروں کے ذریعہ عالمی سطح پر تیز کی جاتی ہیں، اسی قدر اسلام کی آغوش میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جو لوگ اسلام سے عداوت کا اظہار کرتے ہیں یا جو اسلام کا استعمال کرکے اس کے پیغام کے ساتھ ناانصافی سے کام لیتے ہیں، ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ اسلام کو حصول اقتدار کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اس کی تعلیمات کی گہرائی سے واقفیت نہیں رکھتے۔ یہ وقت آگیا ہے کہ ربیع الاول کے اس مہینہ میں اسلام کے دشمن اور دوست دونوں اس بات کے لیے تجدید عہد کریں کہ وہ اس پیغام الٰہی کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کریں گے اور اس کو اپنی زندگی میں پورے طور پر برتنے کی کوشش کریں گے۔ یہ خدا کا وہ پیغام ہے جو رحمت و کرم کے جذبہ سے پُر اور پوری کائنات کے لیے یکساں طور پر عدل کا سر چشمہ ہے۔ اس کو دل کی آنکھوں سے پڑھا جائے اور انصاف پسندی کے مزاج کے ساتھ سمجھا جائے۔یہی حق پرستی کا تقاضہ ہے۔
ہندوستان میں ابھی ابھی دسہرہ کا تہوار گزرا ہے جس کو ظلمت پر روشنی اور باطل پر حق کی فتح کے طور پر ملک کے ہندوؤں نے منایا ہے۔ لیکن اس تہوار کے موقع پر بھی جب مغربی بنگال میں دُرگا پوجا کا انعقاد کیا گیا تو ہندو مہاسبھا نے عدم تشدد کے پیامبر مہاتما گاندھی کے ساتھ اپنی پرانی دشمنی کا اظہار کیا اور گاندھی جی کے ہم شکل کی مورتی بناکر اَسور کی جگہ پیش کر دیا۔ ہندودیومالا کے اعتبار سے اَسور کو شمالی ہندوستان میں ظلم و نا انصافی کی علامت اور شیطانی کردار کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی کی ایسی مجرمانہ تصویرکشی پر ہر طرف شور اٹھ کھڑا ہوا اور انصاف پسندوں نے یہ آواز اٹھائی کہ گوڈسے کے پرستاروں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ دنیا بھر میں عدم تشدد کے پیامبر کے طور پر معروف ہندوستان کی اس عظیم شخصیت کو بدنام کریں جس کے ذکر سے اس ملک کو عزت کا مقام عالمی سطح پر حاصل ہوجاتا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی مغربی بنگال کی پولیس حرکت میں آگئی اور اس مورتی کی شکل کو بدلوایا جس سے گاندھی جی کی توہین ہورہی تھی۔ گاندھی جی کے لیے اٹھنے والی یہ ملک گیر صدائیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ابھی بھی اس ملک کا ضمیر زندہ ہے اور اس کی محبت و رواداری کی تہذیب پر نفرت و خوں ریزی کا وہ عنصر غالب نہیں آسکا ہے جس کو پھیلانے کے لیے شرپسندوں نے ہندوستان کی آزادی کے صرف ایک سال کے اندر ہی مہاتما گاندھی کا قتل گوڈسے کے ہاتھوں کروایا تھا۔ ہندوستان کے خمیر میں گاندھی جی کا رنگ اتنا گہرا ہے اور ان کی رہنمائی کی روشنی اس قدر جوان ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود اس کو بجھا پانا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ کثرت میں وحدت کا یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک گاندھی کی روح اور ان کا پیغام ہندوستانیوں کے دلوں میں بستا رہے گا۔ باطل کو وقتی طور پر غلبہ نصیب ہوجائے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حق کا چراغ پھر کبھی روشن نہیں ہوگا۔ دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ انجام کار حق ہی فتحیاب ہوتا ہے۔
حق و محبت کی فتحیابی پر ایک اور دلیل یہ سامنے آئی ہے کہ آلٹ نیوز اور کاروانِ محبت سے وابستہ حضرات کو نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین کی خبر کے مطابق آلٹ نیوز کے محمد زبیر اور پرتیک سنہا نوبل انعام برائے امن حاصل کرسکتے ہیں جس کا اعلان جمعہ کے روز ناروے کے وقت کے مطابق گیارہ بجے کیا جائے گا۔ محمد زبیر اور پرتیک سنہا ہندوستان میں غلط خبروں کی غلطیوں کو اجاگر کرتے رہے ہیں اور نفرت کی ظلمتوں کو سچائی کی روشنی سے مٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی برس جنوری میں محمد زبیر کو اس ٹوئٹ کے لیے گرفتار کر لیا گیا تھا جو چار سال پہلے انہوں نے کیا تھا اور اس سے کسی کے مذہبی جذبات کی اہانت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ظلمتوں کا جو دور گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے، اس کی وجہ سے انہیں یہ ذلت و پریشانی برداشت کرنی پڑی۔ البتہ دنیا میں حق و انصاف کے حامیوں کی کمی نہیں ہے اور بالآخر پرتیک سنہا اور محمد زبیر کی حق پرستی ان کے کام آئی اور انہیں ان کی بے مثال ہمت و جرأت اور مشکل دور میں حق کا چراغ روشن رکھنے کے لیے یہ اعزاز ملا کہ دنیا کے عظیم لیڈران کے ساتھ انہیں بھی اس انعام کے حق داروں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ ’’کاروان محبت‘‘ اور ہرش مندر کو بھی اس انعام کے حق داروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ انعام کسے ملتا ہے اس کا پتہ تو 7؍ اکتوبر کو پوری دنیا کو چل جا ئے گا لیکن ہندوستان کی سر زمین سے عالمی برادری کو یہ پیغام جائے گا کہ نفرتوں کے طوفان میں ابھی بھی محبتوں کا کارواں رواں دواں ہے، اس لیے مایوس نہیں ہونا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]