عبدالسلام عاصم
کیا چین کا شیرازہ بھی سابق سوویت یونین کی طرح بکھر سکتا ہے؟ بظاہر یہ سوال اتنا سیدھا نہیں کہ سیاسی تجزیہ نگاری سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر فوراً اس کا اطمینان بخش جواب دے دیا جائے۔ باوجودیکہ چین میں بباطن جو سیاسی اور سماجی اضطراب کا ماحول ہے، اُس پر نظر رکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ زمانے کی رفتار میں تیزی کی وجہ سے جاری دہائی کے ہی کسی موڑ پر دنیا کو اکیسویں صدی کے اولین چونکانے والے انقلاب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سابقہ صدی کی آخری دہائی کے آغاز میں ایسے انقلاب کا میدانی سامنا اور نظریاتی مشاہدہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے جن سے وہ محرکات پوشیدہ نہیں جو کسی بڑے واقعہ یا سانحہ کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔
اتنا تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ چین میں 1921 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد روس میں آنے والے انقلاب سے متاثر ہو کر ہی رکھی گئی تھی۔ کارل مارکس اور لینن کی فکر سے اتفاق کا دائرہ اُن دنوں اس تیزی سے وسیع ہو رہا تھا کہ سرمایہ داراوردینداردونوں حلقوں نے باہمی اختلافات وقتی طور پر ختم کر کے جارحانہ دفاعی محاذ قائم کر لیا تھا۔ اس رُخ پر ذو قطبی دنیا کے ہر ناموافق واقعہ کا یہ دونوں طاقتیں مل کر سامنا کررہی تھیں۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور سابق سوویت یونین کی دوستی کو خطرے کی شکل میں دیکھ کر پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کی مذموم سیاست شروع کی گئی جس کا سلسلہ کس انجام تک دراز ہوا، اس کی تاریخ پہلے کے واقعات اور سانحات کی تاریخ سے نسبتاً زیادہ معتبر انداز میں آن ریکارڈ موجود ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کو قوم پرست چینی جماعت گومانتک سے تین دہائیوں کی نبرد آزمائی کے بعد 1949میں بالآخر کامیابی مل گئی۔ اس کامیابی کے بعد ماؤ زی تنگ نے جدت طرازی کے نام پر ایک نظریاتی چین کی بنیاد رکھی۔ دو دہائیاں ایسی گزریں کہ ذہین سے ذہین لوگ قطعیت کے ساتھ یہ کہنے سے گھبراتے تھے کہ عقائد کے خلاف جنگ میں کامیابی ’’علم‘‘ کو ملے گی یا ایک نظریے پر دوسرے نظریے کی جیت کا مرحلہ وار سلسلہ ہی دراز ہو کر اُس دائرے کو عملی شکل دیتا رہے گا جس کے سائنسی نقشے میں دنیا گول ہے۔ بہرحال خلاف فطرت یمینی سوچ کی طرح یساری نظم کو بھی انجام کار بکھرنا تھا۔ اس کا آغاز سوویت یونین سے ہوا۔ خوابوں کی اِس دنیا کا شیرازہ ایکدم سے تو نہیں بکھرا، البتہ 1970 میں وہاں اندر کی بے چینیاں اتنی باہر ضرور آگئی تھیں کہ مغرب اُن کو بھنانے کی تیاری میں لگ گیا تھا۔ چین نے بھی اپنے یہاں اندیشوں کو کسی اور کیلئے امکانات میں بدلنے سے بچانے کے رُخ پر کوششیں شروع کر دی تھیں۔ تابڑ توڑکچھ ایسی اقتصادی اصلاحات کی گئیں کہ اندر باہر ہر جگہ دیکھنے والوں کو ایسا لگے کہ حکومت معیشت پر اپنی گرفت ڈھیلی کر رہی ہے۔ بباطن لیکن کچھ نہیں بدلا تھا۔ اس کا نظارہ دنیا نے 1989 میں چین کے تیانن مین اسکوائر میں کیا۔ ماقبل کورونا کمیونسٹ نظام والے چین کی عصری تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا جو تشویشناک عالمی توجہ کا مرکز بنا۔ اس واقعہ میں مظاہرہ کرنے والے طالب علموں اور عام شہریوں کے خلاف زبردست پولیس اور فوجی کارروائی میں کوئی 200 لوگ مارے گئے تھے۔ تشدد کا مظاہرین نے کس شدت سے مقابلہ کیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ درجنوں سیکورٹی جوانوں کی بھی جانوں کا زیاں ہوا تھا۔
اس واقعہ کے دو سال بعد ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ چین میں اس واقعہ پر کوئی شدید ردعمل اس لیے سامنے نہیں آیا کہ ممکنہ اندیشوں کو بھانپتے ہوئے وہ اپنے یہاں ایک حد تک پیش بندی پہلے ہی کرچکا تھا۔ کمیونسٹ نظام میں ایک سے زیادہ کاسمیٹک تبدیلیاں لا کر درونِ ملک عوامی سوچ اور برونِ ملک نظریاتی دشمنوں کی تمام تر توجہ ظاہری تبدیلیوں کی طرف مبذول کردی گئی تھی۔ اس سے بہر حال چینی آمرانہ اشتراکیت میں ایک ایسی جمہوری لوچ ضرور پیدا ہو گئی تھی جو یمینی شخصی حکمرانی میں نظر نہیں آتی۔ لامرکزیت کے اس نمائشی اہتمام کے پس پردہ چونکہ اختیارات کی مرکزیت کو غیر متاثر رکھنے کی کوشش جاری رہی، اس لیے آگے چل کر چینی حکمراں اس قدر الجھ گئے کہ وہ محنت کے استحصال اور اشیا سازی کے ذریعہ عالمی منڈیوں کو زیر اثر لینے کی اپنی پالیسی کے ایک محدود فریم ورک میں ہی نئے عہد کے تمام تقاضوں سے نمٹنے کی کوشش کرنے لگے۔ دوسری طرف زمانے کی رفتار کو لگنے والی برقی مہمیز نے زمینی سرحدوں کو وسیع کرنے سے لے کر نت نئی راہداریوں کو اقتصادی ترسیل کا ذریعہ بنانے تک کی تمام حکمتوں کو اذکار رفتہ دکھانا شروع کردیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی اب اس سوال کے گھیرے میں ہے کہ اس کا مستقبل تاریک ہے یا روشن!
سابق سوویت یونین نے 1970 سے1990 تک کی دو دہائیاں اسی طرح ضائع کی تھیں۔ ایک آہنی پردہ گرا کر دنیا کو محرومِ تماشہ رکھنے کی اس کی کوشش نے اُسی کو یہ دیکھنے نہیں دیا کہ دو دہائیوں میں عالمی بالادستی کے بدلتے تقاضوں کی تکمیل میں وہ خود کتنا پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ دنیا پر غلبے کی روایتی خواہشات کو سائنسی ترقی سے استفادہ کرتے ہوئے نیوکلیائی طاقت کے ذریعہ پورا کرنے والی سوچ کا دائرہ کائنات کی تسخیر کے رُخ پر انتہائی محدود تھا۔ حربی محاذ پرسائنسی ترقی کے تباہ کن مظاہرے اور امکانات کی جگہ اندیشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ویتنام کی جنگ کے ساتھ ختم نہ کرنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نائن الیون کا جواب جوابی جارحیت سے دینے کا مغرب کو نقصان اٹھانا پڑا۔ حالات کے تازہ موڑ پریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس ادراک کی وجہ سے ہی ترقی یافتہ دنیا خسارے کی سوچ سے کسی حد تک باہر نکل آئی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اس وقت یوکرین میں روسی حماقت کا جارحانہ جواب تیسری عالمی جنگ کی تباہی برپا کرچکا ہوتا۔
تازہ منظر نامے میں چینی صدر شی جن پنگ تیزی سے جارحانہ انداز اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی 20 ویں کانگریس میں ان کی تقریر سے اتنا تو پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ماضی کے دکھاوے کی اصلاحات کا ڈھونگ بھی اب ختم کر رہے ہیں اور ایسی پالیسیوں سے وہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے موڈ میں نہیں جن کی وجہ سے نہ صرف سرمایہ کار متاثر ہورہے ہیں بلکہ سرکاری انتظامیہ میں بھی تغیر پسند لوگوں کے اندر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ شی جن پنگ نے کووڈ پالیسی کو بھی تفہیم کی شرط سے مشروط نہیں رکھا۔ بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کا جاری سلسلہ عالمی سرمایہ کاروں کو کتنا راس آتا ہے اور وہ اس سے کتنا اوبتے ہیں!اس پر بظاہر وہ کسی صلاح مشورے کے حق میں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اُن سے عدم اتفاق کرنے والوں پر واضح ہے کہ عالمی سرمایہ کاروں کیلئے ارضِ خدا تنگ نہیں ہے۔ کم خرچ بالانشیں محاورے کا استعمال جو چینی مصنوعات کی پہچان بن گیا تھا۔ اب اس پر بھی چینی اجارہ داری بظاہر ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق کم قیمت والی مصنوعات کے بہت سے آرڈر جو بس چین کو ہی ملتے تھے، اب ہندوستان کو ملنے لگے ہیں۔
حکمرانی کی ذمہ داری صرف سلامتی اور تحفظ کے اقدامت تک محدود نہیں۔ حسبِ حالات چلنے اور زمانے کی رفتار سے ہم آہنگی کیلئے کبھی وقتی طور پر تو کبھی بڑی حد تک دیر پا ترمیمات کرنا پڑتی ہیں۔ یہ کام اصلاحات کے زمرے میں آتا ہے۔اصلاحات صرف غلطیوں کی نہیں کی جاتیں، بہتری کے رُخ پر اٹھائے جانے والے قدم بھی اصلاحی کہلاتے ہیں۔ رائٹر کی ایک اطلاع کے مطابق اِس بار شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں کسی اصلاح کا ذکر کم اور تحفظ اور سلامتی کی باتیں زیادہ کی ہیں۔ اشارہ اتنا غیر واضح بھی نہیں کہ کچھ سمجھا ہی نہ جاسکے۔20ویں کانگریس کے انعقاد سے کچھ پہلے جلسہ گاہ کے ارد گرد سخت پہرے کے باوجود شی جن پنگ کے خلاف کچھ تنقیدی بینر لگا دیے گئے تھے۔ ہر چند کہ حکام نے بہ سُرعت انہیں منظر سے ہٹا دیا لیکن تب تک سوشل میڈیا پر دنیا نے اس کا نظارہ کر لیا تھا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]