قرض کاسفر کہیں ’امداد‘ وصولی تک نہ پہنچ جائے

0

بھارتیہ جنتاپارٹی کی فرد سیاست اور حکمرانی کا کوئی باب ایسا نہیں ہے جس پرجا بجا تنقید اور تنقیص کی سیاہی نظرنہ آتی ہو۔ اور عوام کو بار باریہ احساس کچوکے نہ لگاتاہوکہ ہم نے ملک عزیزکے انتظام وانصرام کو ہوس اقتدار کے مریض بے سمت طفلان خود معاملہ کے سپرد کرکے ملکی وقار، خوشحالی، استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوریت کو دائو پر لگا رکھاہے۔کبھی عالمی فورم پر ہماری جمہوریت سر بازار رسوا ہوتی ہے تو کبھی احترام آدمیت، مذہبی اورشخصی آزادی کے معاملے میں دنیا ہمیں سند بے توقیری دیتی ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ حقیقت قبول کرنے کو تیار نہیں۔اب تو خود ہمارے اپنے ہی ایک آئینی ادارہ نے ایسی رپورٹ جاری کی ہے جس کے آئینہ میں ہم اپنی معاشی ترقی کی قلعی اترتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
جی 20کے تماشائے بے ذوق اور مشق رائیگاں کے اگلے ہی دن ریزروربینک آف انڈیا(آربی آئی) نے ہندوستان پر غیرملکی قرضہ جات کی تفصیل جاری کی ہے۔آر بی آئی نے کہا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ہندوستان پر غیرملکی قرضوں میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 تک بیرونی قرضہ جات 624 بلین ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔جو ملک میں موجود زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں زیادہ اور معیشت کے تناسب سے 5.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔مالی سال 2021-22 کے مقابلے میں مالی سال 2022-23 میں بیرونی قرضوں میں تقریباً 5.6 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر نومولود 46 ہزار روپے کا قرض لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن غیر ملکی قرض میں اس بھاری اضافہ کے بعد ہر ہندوستانی نومولود پر بھی قرض کی رقم میں بھاری اضافہ ہواہے۔کورونا وائرس جیسی موذی وبا کے بعد دنیا بھر میں قرضوں کی شرح سود میں اضافہ ہوا ہے جس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑ رہا ہے۔ اب قرض کی ادائیگی کیلئے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان بھی مزید رقم ادا کررہا ہے۔یہ رقم ایک سال پہلے 5.2 فیصد کے مقابلے 5.3 فیصد تک بڑھ گئی ہے یعنی قرض کی ادائیگی 2021-22میں 41.6 بلین ڈالر تھی وہ 23-2022 میں بڑھ کر 49.2 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔
ستم یہ ہے کہ ہم اسے بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ بھاری غیر ملکی قرض کا بوجھ ہمارے اندر کے احساس خودداری کو جگارہاہے۔اس کے برعکس وزیرخزانہ دعویٰ کررہی ہیں کہ ملکی معیشت کے بارے میں ہمیں فکرمندہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیوںکہ ہمارا غیر ملکی قرض ابھی بھی ’کمفرٹ زون‘میں ہے۔ یعنی کشکول گدائی تھامے ہمارے ہاتھوں میں کوئی لرزش نہیں ہورہی ہے۔وزیرخزانہ کہتی ہیں کہ برآمدات اور مجموعی قومی آمدنی کے مقابلے میں بھی غیرملکی قرضہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وہ اعداد وشمار کے مختلف گوشوارے بھی پیش کررہی ہیں جیسے کہ مارچ کے آخر تک جی ڈی پی کے ساتھ غیر ملکی قرضوں کا تناسب کم ہو کر 18.9 فیصد رہ گیا ہے جو ایک سال پہلے تک 20 فیصد تھا۔ مجموعی غیر ملکی قرضوں میں سے 79.4 فیصد طویل مدتی قرضے ہیں جبکہ 20.6 فیصد قلیل مدتی قرضے ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں کا تقریباً 92 فیصد ہیں۔وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دیگر درمیانی آمدنی والے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو ہندوستان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ہمارے کل غیر ملکی قرضوں میں قلیل مدتی قرضے بہت کم ہیں جو معیشت پر بوجھ نہیں ڈالتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے غیر ملکی قرضوں میں اضافے کا ملکی معیشت پر بھاری اثر پڑے گا اور عام آدمی کیلئے چلائی جانے والی فلاحی اسکیموں میں کٹوتی کے ساتھ ہی مہنگائی بھی عوام کو خون کے آنسو رلاسکتی ہے۔اگر معیشت کے مقابلے میں غیر ملکی قرضہ بڑھتا ہے تو ملک کی خودمختار درجہ بندی (Sovereign Rating) متاثر ہوتی ہے۔ جس کا خاص طور پر ترقی پذیر معیشتوں پر زیادہ اثر پڑتا ہے اورملک کی شرح نمو بھی سست ہوسکتی ہے۔غیر ملکی قرض کی ادائیگی میں نادہندہ ہونے کی صورت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جاتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ بھی مسدود ہوجاتی ہے۔ اس سے صنعتیں اور ترقیاتی منصوبے متاثر اور روزگار کے مواقع کم ہونے لگتے ہیں،جو ہندوستان میںپہلے سے ہی کم ہیں۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ اگر کسی ملک میں پیداوار نہ بڑھے، روزگار نہ بڑھے اور امیرو غریب کے درمیان عدم مساوات کم نہ ہوتو اس ملک کی معیشت غیر ملکی قرضوں اور’ا مداد‘ پر منحصر ہوجاتی ہے۔ہندوستان میںابھی تک تو ’ امداد‘ کی نوبت نہیں آئی ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ مودی حکومت کا سارا کاروبار قرضوں پرچل رہا ہے۔ یہ سلسلہ اگر ایسے ہی جاری رہا تو کچھ بعیدنہیں کہ امداد وصولی کی بھی نوبت آجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS