جمہوریت کی سب سے بڑی پنچایت کا مذاق

0

ہندوستانی پارلیمانی تاریخ کے صفحات میں مانسون سیشن 2025 ہمیشہ ایک بدنما داغ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس سیشن کی پوری فضا تعطل، ہنگامہ آرائی اور بے مقصد تکرار کی نذر ہو گئی۔ اعداد و شمار خود بولتے ہیںکہ لوک سبھا میں کل 120 گھنٹے کی بحث کا ہدف رکھا گیا تھا مگر محض 37 گھنٹے ہی ایوان چل سکا۔ 55 سوالوں کے جواب دیے گئے اور 12 بلوں کو کسی نہ کسی طرح منظور کرایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ایوان زیریں کو کیا واقعی اسی حال میں چھوڑ دینا جمہوری روایت کہلائے گا؟ یا یہ عوامی اعتماد کے ساتھ کھلا مذاق ہے؟

اس بار ہنگامہ کسی معمولی مسئلے پر نہیں ہوا بلکہ اس کے مرکز میں وہ متنازع بل تھا جو وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزراء کو سنگین الزامات کے تحت محض 30 دن کی حراست کے بعد عہدے سے ہٹانے کا اختیار دیتا ہے۔ آئین (130ویں ترمیمی بل) کے ساتھ جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل اور یونین ٹیریٹری گورنمنٹ (ترمیمی) بل بھی پیش کیے گئے۔ تینوں کی روح ایک ہی تھی یعنی ایگزیکٹیو اداروں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے عوامی نمائندوں کو بھی محض الزامات کی بنیاد پر معزول کر سکیں۔ اپوزیشن کااعتراض بجا ہے کہ یہ بل آئین کی جڑیں ہلانے والا قدم ہے، یہ اصول کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو، ہر شخص بے گناہ ہے، اس پر کھلا حملہ ہے۔

ایوان میں منیش تیواری نے نہایت دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ بل آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے اور عدلیہ کو بائی پاس کرتے ہوئے ایگزیکٹیو کو جلاد کا اختیار دے رہا ہے۔ اسد الدین اویسی نے اسے ’’گسٹاپو بنانے‘‘ کے مترادف قرار دیا۔ اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑ کر امت شاہ کی طرف پھینکیں، نعرے بازی ہوئی، کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ردعمل محض احتجاج تھا یا جمہوری اداروں کے اندر تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی علامت؟

ادھر بی جے پی اور اس کے اتحادی اراکین جیسے نشی کانت دوبے اور چراغ پاسوان نے اپوزیشن کو غیر سنجیدہ اور غیر جمہوری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اٹل بہاری واجپئی سے لے کر اڈوانی، اوما بھارتی اور خود امت شاہ تک الزامات پر اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے سکتے ہیں تو آج کے قائدین کیوں جیل سے اقتدار کے ایوان تک پہنچنا چاہتے ہیں؟ ان کے مطابق یہ بل سیاست میں اخلاقیات کا درخت اگانے کی کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے یا پھر یہ اخلاقیات کا نقاب اوڑھ کر سیاسی حساب کتاب چکانے کا ایک حربہ ہے؟

سنجے راوت نے اس بحث کو ایک اور رخ دیا۔ ان کے مطابق یہ بل دراصل نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو جیسے اتحادیوں کو دبائو میں رکھنے کا حربہ ہے تاکہ وہ این ڈی اے سے الگ نہ ہو جائیں۔ بی جے پی کو 2024 کے انتخابات میں محض 240 نشستیں ملی تھیں۔ نائیڈو کی 16 اور نتیش کی 12 نشستوں کے بغیر مرکز میں اکثریت کا حصول ناممکن تھا۔ ایسے میں یہ بل دراصل اقتدار کی کرسی کو سہارا دینے کا ذریعہ ہے، نہ کہ سیاست کو پاکیزہ بنانے کا۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر جمہوریت کی سب سے بڑی پنچایت کو ذاتی مفادات کی اکھاڑہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امت شاہ خود جب گجرات کے وزیر داخلہ تھے تو گرفتاری سے پہلے استعفیٰ دے کر اصول پسندی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی اصول پسندی کے نام پر آج وہی ترمیمی بل لایا جا رہا ہے جو وزیروں کو محض الزامات پر معزول کرسکتا ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟
ہنگامہ آرائی کے بیچ ایک اور واقعہ سامنے آیا۔ ترنمول کی رکن پارلیمنٹ میتالی بیگ نے الزام لگایا کہ مرکزی وزرا کرن رجیجو اور رونیت بٹو نے ان پر حملہ کیا۔ اگر یہ الزام درست ہے تو یہ پارلیمانی وقار کی توہین ہے لیکن افسوس کہ اس پر بحث کی جگہ الزام تراشی اور انکار نے لے لی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ سارا تماشہ کس کیلئے تھا؟ عوام کیلئے یا اقتدار کی کرسی کے تحفظ کیلئے؟ مانسون سیشن کا حال یہ ہے کہ اسپیکر نے خود کہاکہ یہ سیشن توقعات پر پورا نہیں اترا۔ مگر یہ ناکامی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی سے زیادہ اس نظام کی عکاس ہے جو ہر مسئلے کو ’’اقتدار کی کشمکش‘‘ میں تبدیل کر دیتا ہے۔
جمہوریت کا حسن مکالمے میں ہے شور و غل میں نہیں۔ اختلاف جمہوریت کا جوہر ہے، لیکن جب اختلاف کو سیاسی بقا کے کھیل میں بدل دیا جائے تو یہ نظام اپنی بنیادیں کھو دیتا ہے۔ 37 گھنٹے کی بحث، 55 سوال اور 12 بل یہ اعداد و شمار ہندوستان جیسے ملک کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ اس نظام کی ناکامی کی گواہی دیتے ہیں جو عوام کے اعتماد پر قائم ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی پنچایت کو عوام کا ایوان بنایا جائے، اقتدار کے کھیل کا میدان نہیں۔ بصورت دیگرآنے والی نسلیں یہ سوال پوچھیں گی کہ جب آئین پر وار ہوا، جب جمہوری ادارے کمزورکیے گئے تو عوامی نمائندے کیا کر رہے تھے؟ شور مچا رہے تھے یا سچ بول رہے تھے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوریت کو بچا رہے ہیں یا اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں؟

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS