ازقلم: امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
آج کل جو حالات ارض مقدس فلسطین میں رونما ہورہے ہیں اس سے کون نہیں واقف ؟ بچہ بچہ بلکہ بوڑھا بوڑھا اس بات سے واقف ہے کہ وہ جگہ جہاں نبیوں کا اجتماع ہوا تھا، وہ جگہ جہاں امام الرسل نے امامت کرائی، وہ جگہ جہاں آدم صفی اللہ، نوح نجی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ، اسماعیل ذبیح اللہ، موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ، محمد رسول اللہ، اکٹھا ہوے تھے۔
وہ جگہ جسکا ذکر قرآن میں ہے، وہ جگہ جسکا ذکر حدیث میں ہے، وہ جگہ جسے عمر فاروق نے فتح کیا تھا، وہ جگہ جسے صلاح الدین ایوبی نے آزاد کیا تھا، آج اسی جگہ کچھہ تشدد پسندوں نے، کچھ شیطان کے پلوں نے، کچھ ابلیس کے کتوں نے، کچھ نمرود کے غنڈوں نے، کچھ دجال کے بچوں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔
اور وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، دن دہاڑے بم کے بوچھار کئے جارہے ہیں، مسجد کے مقتدیوں پر گولیوں کے انبار برساے جارہے ہیں، مسلم پردہ نشینوں کو ہلاک کئے جارہے ہیں۔
اب سول یہ ہے کہ وہ فرد جو خود کو مسلمان قرار دیتا ہے، وہ فرد جو خود کو عاشق رسول کہتا ہے، وہ فرد جو خود کو ملت ابراہیمی کا کڑی کہتا ہے، وہ فرد جو خود کو خدا کا بندہ کہتا ہے،
اس پر ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے فلسطینی بچے اور بچیوں کے تعلق سے، بوڑھے اور جوان کے تعلق سے، مظلوم اور بےبس کے تعلق سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
کیا وہ یہی سوچ رکھتا ہے؟ کہ جس طرح دنیا کے دوسرے خطوں میں خونریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں اسی طرح فلسطین میں پیش آرہا ہے۔
کیا وہ یہی سوچ رکھتا ہے؟ کہ فلسطینی مسئلہ سارے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ تو عرب ممالک کا مسئلہ ہے۔
کیا وہ یہی سوچ رکھتا ہے؟ کہ فلسطینیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ انکی خود کی کمائی ہے۔
کیا وہ یہی سوچ رکھتا ہے؟ کہ فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کا پہاڑ انکے گناہوں پاداش میں توڑا جارہا۔
تو یاد رکھیے اگر کوئی شخص ایسی سوچ رکھتا ہے تو وہ بالکل اخوت اسلامی کے منافی ہے، قرآن و حدیث کے منافی ہے۔
اس لئے تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائیوں کی مدد کریں، وہ اپنی ارض مقدس کی حفاظت کریں، وہ اپنے قبلہ اول کی حفاظت کریں، وہ اپنے خلیفہ ثانی اور صلاح الدین ایوبی کی فتح کے کی ہوی مسجد کی حفاظت کریں۔
اس لئے مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو باشعور بنانے اور ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے مسلمان عالم کو چند باتوں پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
(1) امت مسلمہ جسد واحد : پہلی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں موجود امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آپسی محبت ہمدردی و خیر خواہی میں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جسکے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم متاثر ہوجاتا ھے۔ (مشکوة شریف).
گویا حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جو سارے عالم کے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند رہتا ہے،اور دنیا مختلف گوشوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی تشدد کی پر زور مخالفت کرتا ہے اور اس ظلم سے انھیں بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہمارا یہ شعور کمزور پڑ چکا ہے، آج بہت مسلمان اس فکر سے بے گانہ ہو چکے ہیں، انہیں دوسرے مسلمانوں کی کوی فکر ہی نہیں رہی، اس لئے آج اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ ملت کا ہر فرد اپنی یہ ذمہ داری سمجھے اور فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرے۔
(2) غیر اسلامی سوچ: مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو حالات کا صحیح ادراک تو رکھتا ہے مگر ان باتوں کو اس لئے قابل اعتبار نہیں سمجھتا کہ ان سے انہیں کوئی مطلب نہیں، اور بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ ان مسلمانوں کے اعمال کی سزا ہے وہ خود بھگتیں، ہمیں اسسے کوئی سروکار نہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسی سوچ سراسر غیر اسلامی اور اخوت اسلامی کے منافی ہے۔
اس لئے آج اس بات کی بیحد ضرورت ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے اس غیر اسلامی سوچ کو خارج کرکے انہیں اخوت اور بھائی چارگی کا درس دیا جائے۔
(3) فلسطین ساری امت کا مسئلہ ہے: ملت اسلامیہ میں ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ فلسطین کا معاملہ کوئی قومی یا وطنی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو ساری امت کا مسئلہ ہے، یہ تو قبلہ اول کا مسئلہ ہے، یہ تو رسول کے معراج رسول کا مسئلہ ہے۔
قارئین: فلسطین سے مسلمانوں کا تعلق اتنا ہی ہے کہ وہ مسلم علاقہ ہے، اور اس پر دشمن قابض ہے، اور مذہبی لحاظ سے تو وہ مسلمانوں کا مقدس مقام ہے، جس سے اسلامی تاریخ وابستہ ہے، جس سے خلافت راشدہ کے خلیفہ دوم کی خلافت وابستہ ہے، جس سے صلاح الدین ایوبی کی محنت وابستہ ہے۔
پتہ یہ چلا کہ فلسطین کے مسئلے کا تعلق محض عرب ممالک یا صرف کسی وطن سے نہیں ہے بلکہ یہ ساری امت کا مسئلہ ہے۔
(4) امن معاہدے عبث ہیں: مسلم ممالک اور بالخصوص ان عربوں کو جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے ذریعے حل نکالنا چاہتے ہیں، ان کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں، جیسا کہ قرآن مجید نے بھی کہا ہے کہ
“یہودی تم سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک تم انکے ملت کی پیروی نہ کرو” (البقرہ).
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ : “تم ان یہودیوں کو سب سے زیادہ اہل ایمان کا دشمن پاؤ گے”۔ (المائدہ).
قرآن کی ان پیشین گوئی کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہودیوں سے امن مذاکرات و معاہدات کا توقع رکھتا ہے وہ انتہائی حماقت کا شکار ہے۔
اس لئے مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ امت میں جہاد کی روح پیدا کی جائے، اور حقیقی جہاد کا راستہ جہاد بالنفس سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی خواہشات نفس سے جہاد نہ کرنا اس وقت تک دشمنوں سے جہاد میں کامیابی ممکن نہیں۔
جو لوگ نفس کی غلامی میں رہ کر آزادی فلسطین کا نعرہ بلند کرتے ہیں، تو جہاد کے کھوکھلے نعرے بلند کرتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پہلے جہاد بالنفس کریں ، خواہشات کو پس پشت رکھ کر اسباب و تدابیر کی ساری شکلیں اختیار کریں، پھر وہ دن دور نہیں کہ انشاءاللہ فلسطین آزاد ہو جائے۔