محمد حنیف خان
تحفظ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کلی طور پر حکومت سے وابستہ ہے۔یہ اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ ملک کے ہر شہری کو تحفظ فراہم کیا جائے۔اگر کسی ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوجائے تو وہ ملک زبانی جمع خرچ خواہ کتنا بھی کرلے کبھی ترقی کے منازل نہیں طے کرسکتا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں تحفظ کو حد درجہ اہمیت دیتی ہیں۔مرکز جہاں ایک طرف ملک کے تحفظ اور اس کی سلامتی کا دعویٰ کرتا رہا ہے اگر چہ اس کے دور اقتدار میں پلوامہ جیسے حملے بھی ہوئے جس سے متعلق رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔وہیں دوسری جانب ریاستی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں تحفظ اور عوام خصوصاً تاجروں کی سلامتی کا دعویٰ کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی کسی کو لوٹ سکے،قتل کرسکے یا کسی بھی طرح سے نقصان پہنچا سکے۔کاغذی اور زبانی سطح پر یہ بہت زور و شور کے ساتھ ہورہا ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی تحفظ اور سلامتی کے مسئلے پر ہماری حکومتیں بہت تیزی سے آگے بڑھی ہیں۔لیکن دوسری طرف زمینی سچائی یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک کے ہر کونے میں عدم تحفظ کا شکار ہے خواہ وہ کشمیر ہو،اتر پردیش ہو،کرناٹک،آسام ہو یا پھر مدھیہ پردیش ہو ہر جگہ ان میں خوف و ہراس کا ایسا ماحول ہے جو ان کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مرکزی اور ریاستی حکومتیں ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘کے نعرے کے ساتھ بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیںاور ہر ایک کو تحفظ و سلامتی فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں تو پھر اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس کیوں ہے؟وہ کس سے ڈر رہے ہیں اور انہیں کس بات کا ڈر ہے؟
اس کا جواب اتنا سیدھا نہیں ہے اور مشکل بھی نہیں ہے۔سیدھا اس لیے نہیں ہے کیونکہ اس ڈر سے متعلق ایک ایسا بیانیہ قائم کیا گیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جو بھی ان کے خلاف ملک میں ہو رہا ہے،اس کے ذمہ دار یا تو وہ خود ہیں یا پھر ان کے آباء و اجداد ہیں،جن کے عمل کے رد عمل کے طور پر آج وہ نشانہ بنائے جاتے ہیںاور اس کا جواب مشکل اس لیے نہیں ہے کہ سب کچھ سامنے دکھائی دے رہا ہے۔کسی بھی جانب نظر اٹھا کر دیکھ لیجیے عتاب کا شکار کوئی مسلم ہی نظر آئے گا۔
کرناٹک میں جو معاملہ حجاب سے شروع ہوا تھا، وہ مندر کے قریب مسلم دکانداروں کو ہٹائے جانے سے ہوتے ہوئے اب پھل و سبزی منڈیوں میں عمومی بائیکاٹ تک پہنچ گیا ہے۔ابھی تک صرف ماب لنچنگ ہوتی تھی لیکن وزیراعظم کے نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ میں لفظ ’وشواس ‘ کے جڑنے کے بعد معاشی بائیکاٹ کا بھی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جس طرح مسلم دکانداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے، اس سے واقعی ان میں حکومت کے تئیں ’وشواس ‘ بڑھ رہا ہے کیونکہ اس سے قبل اس طرح سے منظم ہو کر کسی شعبۂ حیات کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔
وہ کون لوگ ہیں جو کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے کاروبار کی تباہی کی دھمکی دیتے ہیں؟اس پر بھی کسی طرح کا کوئی پردہ نہیں ہے۔سب جانتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں،کہاں سے آئے ہیں اور ان کی فکری نہج کیا ہے۔ملک کی اکثریت ان کے اس عمل کے خلاف ہے لیکن چند مٹھی بھر لوگ جن کو سیاسی پناہ ملی ہوئی ہے،وہ ملک میں عدم تحفظ کا ماحول بنا رہے ہیں۔یہ لوگ ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور اس کے مسلسل مضبوط ہونے کے بعد ان لوگوں کے ذہنی تفوق اور برتری میںاس قدر ابال آچکا ہے کہ وہ انسانیت کو اب پامال کرنے لگے ہیں۔ان کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ یہی وہی ملک ہے جسے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے۔ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بہتر اب کوئی موقع نہیں آسکتا ہے، اس لیے بغیر کسی روک ٹوک کے وہ آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔حکومتیں بھی ان کا ساتھ پوری طرح سے دے رہی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کو ایک طاقتور وزیراعظم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔وہ من کی بھی خوب بات کرتے ہیں اور نوجوانوں میں حب الوطنی کا جذبہ بڑھانے کے ساتھ ہی صنعتی دنیا میں اس کی ترقی کے لیے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،اسی لیے انہوں نے نئے نئے اسٹارٹ اپ شروع کیے تاکہ نوجوانوں کو کام ملے۔مگر یہ اسٹارٹ اپ کاغذی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان محبت کی شمع جلانے کے بجائے دکانوں و مکانوں کو نذر آتش کرنے جا رہا ہے۔مساجد اور ہائی کورٹ جیسی عمارتوں پر بھگوا جھنڈا لہرا رہا ہے مگر بالکل خاموش ہیں، ایک لفظ بھی نہیں بول رہے ہیں۔وہ وزیر داخلہ جن کے ذمہ ملک کے اندرون کی سالمیت ہوتی ہے وہ مسلم بچی کو گھیرنے،اس کو اکسانے اور زد و کوب کرنے کی کوشش پر اس کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیتے ہیں۔ان کی پولیس مدھیہ پردیش میں ان ہی لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جن پر ظلم کیے گئے ہیں مگر وہ خاموش ہیں کیونکہ اسی سے ان کی کرسی وابستہ ہے۔اب ان کی نظر 2024پر ہے، ایسے میں وہ زبان کہاں کھول سکتے ہیں۔یہ ملک کے دو ایسے طاقتور لیڈر ہیں کہ اگر یہ چاہ لیں تو ایک دن میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کو معاشی سطح پر تباہ کرنے کی کوششیں ختم ہوسکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔در اصل سیاست دانوں کو معلوم ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے جو انہیں سیاست کی اونچائیوں پر نہ صرف پہنچا سکتا ہے بلکہ ان کو وہاں قائم بھی رکھ سکتا ہے۔ادھر چندماہ میں جس طرح سے کرناٹک کو ایک نئی لیباریٹری بنایا گیا ہے جس کی حالت دیکھ کر یدورپا تک کو کہنا پڑا کہ ہر شخص کو امن و چین سے رہنا چاہیے مگر ہمارے دو اہم لیڈران کی زبان پر ایک لفظ نہیں آیا۔دراصل یدورپا جیسے لیڈر اس طرح کے واقعات کو محدود دائرے میں دیکھتے ہیں جبکہ بڑے لیڈر کسی بھی معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔کرناٹک میں الیکشن کے ساتھ ہماچل پردیش میں بھی جلد ہی الیکشن ہونے والے ہیں۔اس سلسلے میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ میں بڑی اہم بات کہی ہے،انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 17اپریل کو ہماچل پردیش میں بھی اتراکھنڈ کے دھرم سنسد کی طرح پروگرام ہونے والا ہے، ان کا اشارہ آئندہ ہونے والے الیکشن کی جانب بھی تھا۔در اصل کورٹ نے اتراکھنڈ میں دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے عوام کو بھڑکانے سے متعلق ریاستی حکومت کو صورتحال رپورٹ داخل کرنے کے لیے کہا ہے،اسی معاملے کی سماعت کے دوران کپل سبل نے سپریم کورٹ کی توجہ ہماچل پردیش کی جانب مبذول کرائی تھی۔عدالت نے کسی طرح کا تبصرہ کرنے کے بجائے متعلقہ افسران کو اس سلسلے میں معلومات دینے کی بات کہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے بھڑکانے، ان کے خلاف سماج میں نفرت پھیلانے اور ان کو ہر سطح پر تباہ کرنے کی کوششیں کرنے والوں کے خلاف ان افسران نے اب تک کیا کیا ہے؟یہ افسر خود ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھولی کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔ایسے میں سپریم کورٹ کو کچھ کرنا چاہیے تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
تحفظ و سلامتی کی سب سے بڑی ذمہ دار حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت کے لیے عوام کی ضرورت ہوتی ہے،حکومت نفرت کے فروغ سے نہیں محبت کا دریا بہانے سے کی جاسکتی ہے۔حکومت اور اس کے سربراہان کو نفرت کے بجائے محبت کو فروغ دینے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔اگر محبت رہی تو یہ ملک بھی رہے گا اور اگر محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تو آگ جلے گی، دھواں اٹھے گا،آنکھیں سرخ ہوں گی،خون کھولے گا اورخون بہے گا لیکن محبت نہیں ہوگی،گلاب نہیں کھلیں گے،مسکراہٹیں نہیں ہوں گی اور کوئی کسی دوسرے کے لیے اپنا خون بہانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔اس کی ذمہ داری ہم سب کی ہے لیکن چونکہ حکومت کا دائرہ نہایت وسیع ہوتا ہے، اس کے پاس پالیسی ساز اور پالیسی نفاذ ادارے ہوتے ہیں جو منظم طور پر کسی بھی بدیہی و غیر بدیہی پالیسی کا نفاذ کر سکتے ہیں،اس لیے مرکزی و ریاستی حکومت کو اب محبت کی بھی پالیسی بنانی چاہیے اور اسے صدق دل اور انسانیت سے لبریز ہو کر نافذ کرنا چاہیے۔
[email protected]