زبان کے نام پر تملناڈومیں جو تنازع شروع ہوا ، وہ پھیل کر کرناٹک تک پہنچ گیا ، تملناڈو کے وزیراعلی ایم کے اسٹالن تونئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت سہ لسانی فارمولہ کے نفاذ کی مخالفت کررہے ہیں ، جبکہ حکومت کرناٹک نے ریاست میں مصنوعات پر دیگر زبانوں کے ساتھ کنڑ زبان میں بھی لکھنالازمی قراردے دیا ہے ۔زبان کے ساتھ ساتھ ایک اورتنازع کھڑاہورہا ہے،اوروہ ہے لوک سبھاسیٹوں کی حدبندی کا،جس پر جنوب کی ریاستوں کی طرف سے بیان بازی شروع ہوگئی ہے ۔اسٹالن مسلسل بیانات دے رہے ہیں ،کرناٹک کے وزیراعلی سدارمیا اورنائب وزیراعلی ڈی کے شیوکمار بھی بول رہے ہیں ۔آندھراپردیش کے وزیراعلی این چندرا بابو ابھی تو اس پر کھل کر نہیں بول رہے ہیں ، کیونکہ ان کی پارٹی مرکز میں حکمراں این ڈی اے میں شامل ہے ،لیکن ماضی میں وہ بھی ریاست کے لوگوں سے آبادی بڑھانے کی اپیل کرچکے ہیں ۔کل ملاکر جنوب کی ریاستوں کو اندیشہ ہے کہ آئندہ ملک میں لوک سبھاسیٹوں کی جو حد بندی ہوگئی ، اس میں وہاں کی سیٹیں گھٹ سکتی ہیں ، جبکہ شمال کی سیٹیں بڑھ سکتی ہیں ۔ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس طرح بھی ہو، حد بندی ہوکر رہے گی ، بلکہ اس کی آہٹ بھی سنائی دے رہی ہے ۔خواتین کیلئے ریزرویشن کا جو بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے اورصدرجمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بنا ہے ، اس کا نفاذ بھی اسی حدبندی کے بعد ہوگا، جب پارلیمنٹ کی سیٹیں بڑھیں گی۔جنوب کی ریاستوں کو اندیشہ ہے کہ اگر حدبندی ہوئی ، تو پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کم ہوجائے گی اورشمال کی ریاستوں کا غلبہ ہوجائے گا، پھر وہ چاہتے ہوئے کچھ نہیں کراپائیں گی ۔جب وہ لسانی فارمولہ کو اپنے کلچر اورزبان کیلئے خطرہ مانتی ہیں ، توحدبندی سے ان کے کان کھڑے ہوں گے ہی۔اتناتو طے ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے ، تو ایک دوسالوں میں لوک سبھاسیٹوں کی حدبندی ہوگی ، لیکن اس سے قبل مردم شماری ہوگی ، جو 2011کے بعد سے نہیں ہوسکی ہے، حالانکہ 10سال بعد 2021میں اسے ہونا چاہئے تھا ، لیکن کورونا اوردیگر باتوں کی وجہ سے سرکارمردم شماری کیلئے قدم آگے نہیں بڑھاسکی ۔
لوک سبھا اوراسمبلی سیٹوں کی حدبندی آزادی کے بعد 4بار ہوچکی ہے ۔شروع کی 3دہائیوں میں 1951، 1961اور1971میںمردم شماری کی بنیاد پر ہوئی تھی۔اس کے بعد آئین کی 42ویں ترمیم کے ذریعہ 2001کی مردم شماری تک سابقہ ہی سیٹوں کورکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آخری حد بندی 2001 کی مردم شماری کے بعد ہوئی تھی ، لیکن اس حدبندی میں سیٹوں میں کمی یا اضافہ نہیں کیا گیا تھا، صرف سیٹوں کی سرحد بدلی گئی تھی ،جس کی وجہ سے کچھ پرانی سیٹیں ختم ہوگئیں اوران کی جگہ نئی سیٹیں وجود میں آگئیں ، اسی طرح کچھ جنرل اورریزرو سیٹیں بھی بدل گئی تھیں ، لیکن سیٹوں کی مجموعی تعداد پہلے جیسی رہی ۔ اب مردم شماری کے بعد جو حدبندی ہوگی ، اس میںکچھ ریاستوں کی سیٹیں بڑھ سکتی ہیں ۔کسی ریاست کی سیٹیں کم ہوں گی یا نہیں ، اس بابت مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے وضاحت کردی ہے کہ جنوب کی ریاستوں کی سیٹیں کم نہیں ہوں گی ، لیکن جنوب کی ریاستیں اس سے مطمئن نہیں ہیں ۔ان کا کہناہے کہ سیٹیں کم ہوں یا نہ ہوں ، جب شمال کی سیٹیں آبادی کے حساب سے بڑھیں گی ، توجنوب کی نمائندگی کم ہوجائے گی ۔اسی لئے سدارمیامرکز کی طرف سے وضاحت چاہتے ہیں کہ اگلی حدبندی آبادی کے حساب سے ہوگی یا اسمبلی کی سیٹوں کے حساب سے ۔وہ تویہ بھی چاہتے ہیں کہ 1971کی مردم شماری کی بنیاد پر اگلی حدبندی ہو ، یعنی اسی کے حساب سے سیٹوں میں اضافہ کیا جائے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ 2001میں جومردم شماری ہوئی تھی ، وہ جنوب کی ریاستوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نہیں ہوسکی تھی۔ایک بار پھر وہ حرکت میں آگئی ہیں اور مخالفت کررہی ہیں ۔
پہلے زبان اوراب حدبندی کے تنازع کی وجہ سے مرکز اورجنوب کی ریاستوں کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے ،چونکہ اگلے سال تملناڈو میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے سیاسی فائدے کیلئے تنازع کو اورہوا دی جارہی ہے۔ جب ابھی یہ حال ہے ، تو حد بندی اوراس کے نفاذ کے وقت کیا حال ہوگا ؟ اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔ جتنی تیاری مرکزی حکومت اگلی مردم شماری اوراس کے بعد حدبندی کیلئے کررہی ہے ، اتنی ہی جنوب کی ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم ہورہی ہیں ، غرضیکہ سہ لسانی فارمولہ کی طرح لوک سبھا سیٹوں کی حدبندی کا معاملہ بھی حساس ہوتاجارہاہے ، جس پر پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔