غزہ(اے ایف پی): اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے منگل کے روز مختلف ملکوں سے آئے ہوئے امدادی کارکنوں کی اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر معافی مانگ لی ہے۔ اسرائیلی فوج نے امدادی کارکنوں کی گاڑی کو اس کے باوجود تاک کر بمباری کا نشانہ بنایا تھا کہ امدادی کارکنوں نے غزہ کے بھوک اور قحط زدہ فلسطینیوں میں خوراک تقسیم کرنے سے پہلے اسرائیل کی فوج کو اپنی موجودگی اور سرگرمی سے آگاہ کر رکھا تھا۔اس بمباری کے نتیجے میں 7امدادی کارکنوں کی ہلاکت ہو گئی۔ جن میں آسٹریلیا کی ایک خاتون بھی شامل تھی۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے اسرائیل سے اس بارے میں وضاحت طلب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ لندن میں اسرائیلی سفیر کو برطانوی وزارت خارجہ میں طلبی بھگتنی پڑی ہے۔
اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے امریکی ادارے ‘ورلڈ سنٹرل کچن’ کے سربراہ اور اس امدادی مشن کی نگرانی کرنے والے جوز اینڈرس سے بات کرتے ہوئے گہرے غم کا اظہار کیا ہے اور ان سے ان 7 قیمتی جانوں کی بمباری سے ہلاکت پر معافی مانگی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج اب تک کئی بار بھوک اور قحط زدہ فلسطینی عوام کو خوراک کے حصول کے دوران بمباری اور فائرنگ کا نشانہ بنا کر بیسیوں کو ہلاک کر چکی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر غزہ میں 32916 سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں۔ جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے اس واقعہ پر معافی مانگے بغیر یہ کہا تھا کہ اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات ہوں گی اور اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا تھا کہ یہ واقعہ جنگ کے دوران ہوا ہے۔ ہم کوشش کریں گے جو ہمارے لیے ممکن ہے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ گویا انہوں نے اس پر کوئی شرمندگی ظاہر کرنے کے بجائے جنگی ماحول کا فطری واقعہ قرار دے کر مٹی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی طرف سے بنائی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی کی چھت جس پر امدادی کارکنوں کے امدادی گروپ کا لوگو بھی نمایاں لگا ہوا ہے، وہ جل گئی ہے اور چھت میں ایک سیاہ گڑھا بن چکا ہے۔ جبکہ دوسری گاڑیوں کا ملبہ بھی آس پاس پڑا ہے۔امریکی ادارے ‘ورلڈ سنٹرل کچن’ نیاس سے پہلے اس واقعہ کو اسرائیلی فوج کا ‘ٹارگٹڈ حملہ’ قرار دیا تھا۔ جس میں پیر کی صبح اس کا عملہ ہلاک ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں آسٹریلیا، برطانیہ، فلسطین، پولینڈ، امریکہ اور کینیڈا کے شہری شامل ہیں۔واضح رہے غزہ سات اکتوبر سے مکمل فوجی محاصرے میں ہے اور اسرائیلی فوج امدادی کارکنوں اور قافلوں کو بھی جگہ جگہ روکتی ہے اور جب چاہے نشانہ بنا لیتی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے غزہ میں بدترین قحط سے آگاہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم رہنماؤں کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد وائٹ ہاؤس کا افطار ڈنر منسوخ
تاہم اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے کہا ہے کہ اسرائیل انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔ تاکہ غزہ کے لوگوں کو خوراک مل سکے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بھی منگل کے روز اس واقعے کی تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ تاکہ امدادی کارکنوں کو محفوظ انداز سے اپنا کام کرنے کا موقع مل سکے۔