اسلامی اور عرب دنیا تاتاری حملہ سے بھی بدتر دور میں داخل

0
فلسطین کا اقوام متحدہ سے مکمل رکن ریاست کا درجہ کا مطالبہ

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

فلسطین کی سر زمین ایک مقدس سر زمین ہے۔ یہ انبیاء کی زمین رہی ہے اور آخری نبیؐ کا رشتہ تو بطور خاص اس اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ خالق ارض و سماء نے جب معراج کیلئے آپ کو بلایا تو آسمان پر تشریف لے جانے سے قبل جبرائیل کو حکم دیا کہ پہلے آپ کو بیت المقدس لے جایا جائے۔ آپ کی آمد سے قبل ہی تمام انبیاء کو وہاں اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ آپ نے سب کو نماز پڑھائی اور اس طرح یہ حجت تمام ہوئی کہ سارے انبیاء جو خدا کا ایک ہی پیغام لے کر اس دنیا میں پوری انسانی بستی کیلئے لے کرآئے تھے اس کی تمام کڑیاں پوری ہوگئیں۔ آخری نبیؐ کو تمام نبیوں پر فضیلت و برتری کے ساتھ ہی یہ اعلان ربانی بھی ہوگیا کہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے اب وہ قیادت چھینی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو باقی اقوام عالم پر ایک درجہ کی فضیلت بخشی تھی۔ اس فضیلت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان میں انبیاء مبعوث ہوتے تھے جو گم گشتہ رہ ہدایت کو منزل کا پتہ بتلاتے تھے۔

لیکن بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانی و عصیان بلکہ اللہ کے خلاف افترا پردازی اور انبیاء کے ساتھ بدسلوکی سے بھی بڑھ کر ان کی ڈھٹائی اس درجہ بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے انبیاء کا قتل تک کرنا شروع کر دیا تھا۔ خدا کی نظر میں انبیاء تمام انسانوں اور فرشتوں سے افضل ہوتے ہیں اور رسول و پیامبر ہونے کی بنا پر ان کی مخالفت کا نتیجہ اکثر عذاب الہی کی شکل میں نمودار ہوا ہے اور خود بنی اسرائیل کئی بار اپنی بدترین خصلتوں کی وجہ سے عذاب آسمانی کے شکار ہوئے ہیں۔ ان کی اسی مسلسل روگردانی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انسانی دنیا کی قیادت ان سے چھین لی گئی اور ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق جن کی نسل سے بنی اسرائیل آتے ہیں ان کے بجائے خدا نے ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام جنہیں ذبیح اللہ ہونے کا تمغہ امتیاز بھی حاصل ہے ان کے حوالہ پوری انسانی دنیا کی قیادت و رہنمائی کا نشانِ امتیاز عطا کردیا اور یہ فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اب قیامت تک یہ منصب اسی آخری نبیؐ کی امت کے ہاتھوں میں رہے گی۔

محمد عربیؐ کی اس امتیازی امت نے اس ذمہ داری کو بہت خوبی کے ساتھ صدیوں نبھایا بھی اور پوری دنیا کو امن و آشتی کا گہوراہ بنادیا، نئے علوم و فنون پیدا کئے اور فکری و علمی بلندی کا وہ ناقابل تسخیر مقام حاصل کرلیا کہ دنیا نے اس سے قبل کبھی ایسی ترقی نہیں دیکھی تھی۔ ترقی کے ساتھ ساتھ خدا سے امت کا رشتہ بھی نہایت قوی اور مضبوط رکھا گیا اور عدل و انصاف کے ترازو کو جب بھی ظلم و جور کی طرف جھکانے کی کوشش کی گئی تو اس کو درست کرنے کے لئے کئی دست و بازو سامنے آگئے اور انہوں نے عدل کا پلڑا ہر حال میں بھاری رکھا۔ اگر کبھی بنو امیہ کے شاہی گھرانوں نے بیت المال کو ذاتی ملکیت سمجھنا شروع کیا تو عمر بن عبدالعزیز کی شکل میں خود اسی گھرانے سے ایسی شخصیت پیدا ہوئی جنہوں نے برسوں کے ظلم کو محض چند مہینوں میں ختم کردیا اور اسلامی اعتدال کے مزاج کو حکومت و عوام بلکہ ہر کسی کا حصہ بنا دیا۔

اگر کبھی عہد عباسی میں منصور کی شکل میں ظالم و جابر پیدا ہوا اور اسلامی عدالتوں کے ذریعہ اپنے لئے جواز کی راہ ہموار کرنے کا ارادہ کیا تو امام ابو حنیفہ جیسے غیوروں نے منصور کے قاضی القضاۃ کے عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کرکے یہ ثابت کیا کہ اگر اسلامی روح کی حفاظت کی خاطر جیل اور قید و بند کی صعوبتیں انہیں برداشت کرنی پڑے تو یہ انہیں منظور ہے لیکن اسلام کی تعلیمات کا استعمال کسی ظالم کے جرائم کو چھپانے کے لئے کیا جائے یہ انہیں منظور نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ کی وفات سے ایک دن قبل جب ان کی والدہ ان سے ملنے کیلئے جیل تشریف لے گئیں تھیں تو اس امام عالی مقام نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ آپ کو فخر ہوگا کہ منصور مجھے اپنے ارادہ کے مطابق جھکا نہیں سکا اور میں نے علم و علماء کی لاج رکھی ہے۔ دوسرے دن امام کا انتقال جیل میں ہو گیا۔ یہی صلابت و حق گوئی فتنہ خلق قرآن کے موقع پر امام احمد بن حنبل کی تھی۔ تمام علماء خوف کے مارے اس فتنہ کے قائل ہوگئے تھے اور واحد امام احمد بن حنبل حق پر قائم رہے اور اسلامی روح کی حفاظت کی۔ سچ یہی ہے کہ اگر ایک شخص بھی اپنی جرأت و ہمت کے ساتھ حق کی آواز کے لگانے کیلئے کھڑا ہوجائے تو ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی بزدلی پر ایک شخص کی آوازِ حق بھاری پڑ جاتی ہے۔

عہد اموی کے بعد عہد عباسی میں بھی حکمرانوں میں گمراہی و بے اعتدالی پائی جاتی تھی لیکن معاشرہ کا عام مزاج دینی و حق پرستی کا ہوتا تھا کیونکہ عام معاشرہ پر علم و عمل کے زیور سے آراستہ ایسی برگزیدہ شخصیتوں کا زور چلتا تھا جو اپنی ذاتی زندگی میں زہد و تقوی اور خشیت الٰہی سے سرشار طبیعت کا نمونہ ہوتے تھے۔ وہ عوام کی دینی و اخلاقی زندگی کو سنوارنے کی فکر اسی طرح رکھتے تھے جس طرح کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی فکر دن رات رکھتا ہو اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ارباب حکومت کی برائیوں کا اثر عوام پر بہت معمولی پڑتا تھا کیونکہ زندگی کے بیشتر شعبے خدا پرست علماء و صلحاء کی نگرانی میں ہوتے تھے۔

عدالتوں میں بھی عام طور سے گہرے علوم و فنون کے ماہر اور زہد و تقویٰ سے لیس قاضی معمور کئے جاتے تھے جن کی وجہ سے عام طور پر ظلم نہیں ہوپاتا تھا۔ اس کا فطری اثر یہ ہوتا تھا کہ حکمران بھی علماء کو قریب رکھتے اور ان کے مشورے کے مطابق اپنی سیاسی، معاشرتی یا معاشی پالیسیاں طے کرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اقتدار کے استحکام کا راستہ یہیں سے نکلتا ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے معاملوں میں ارباب اقتدار اپنی من مانی کرتے اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے البتہ عوام کے پاس چونکہ اپنی اخلاقی درستگی کیلئے متبادل موجود تھا اس لئے ان کا کام چل جاتا تھا اور سماج کا نظام معتدل و مستحکم انداز میں چلتا رہتا تھا۔

مرور ایام کے ساتھ یہ بڑی تبدیلی پیش آئی کہ عہد عباسی کے حکمرانوں نے خود کو عوام سے کاٹ کر خود کو محلوں میں بند رکھنا شروع کر دیا اور چند چاپلوسوں اور خود غرضوں کے مشورے سے کام کرنے لگے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ارباب اقتدار ان چاپلوسوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے اور عوام و حکمراں کے درمیان کا ربط بتدریج ٹوٹتا گیا۔ سماج میں علماء و صلحاء کا اثر و رسوخ تو باقی رہا لیکن ملکی انتظام و انصرام کا سارا معاملہ بگڑ گیا۔ الگ الگ علاقوں کے امرا ء نے خود مختاری کا اعلان کردیا یا پھر برائے نام خلیفہ کے ساتھ وابستگی رکھی۔ لیکن اس کے باوجود عالم اسلام کی قوت باقی رہی کیونکہ دوسری کوئی طاقت بارہویں تیرہویں صدی عیسوی میں ایسی موجود نہیں تھی جو عالم اسلام کو چیلنج کر سکے۔

خود مختاری کا اعلان کرنے والے امراء بھی مسلمان ہی ہوتے تھے اس لئے اسلامی نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ یوروپ ابھی تک اپنی تاریکی کے دور میں جی رہا تھا اور امریکہ کا کہیں کوئی اتا پتا تک نہیں تھا۔ وہ مہذب دنیا کی نظروں سے بالکل الگ جزیرہ تھا جس میں کوئی دلچسپی اب تک دکھائی نہیں گئی تھی۔ ماضی کی رومی سطوت کو اسلام کے جاں بازوں نے ایسی شکست دی تھی کہ وہ ابھی بھی اسی زخم کو چاٹ رہی تھی۔ فارس خود اسلام کی آگوش میں تھا۔ گویا اس وقت کی دنیا میں کوئی ایسی طاقت موجود ہی نہیں تھی جو اسلامی اقتدار کو آنکھ دکھا سکے۔ تاتاری ایسی پہلی قوت تھی جس نے اسلامی دنیا کو چیلنج کیا اور اس کو بری طرح متاثر کیا۔

بعض مورخین کا ماننا ہے کہ مور و ملخ کی طرح چھا جانے والے تاتاریوں نے 1258 میں بغداد کو اس طرح نیست و نابود کیا کہ اسلامی دنیا اس کے بعد سے دوبارہ پھر کبھی اپنی عظمت کو بحال نہیں کر پائی۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ آخر کار تاتاریوں کو عین جالوت کے میدان میں سیف الدین قطز کے ہاتھوں سقوط بغداد کے محض دو سال بعد 1260 میں ایسی شکست سے دو چار ہونا پڑا کہ پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا اور آخر کار مسلم زمینیں دوبارہ اسلام کی تعلیم کیلئے آباد ہوگئیں۔ بلکہ خود تاتاریوں نے اسلام کو قبول کیا اور اپنی حیوانیت سے تائب ہوگئے، لیکن اس کے باوجود اس تباہی کا اثر آج تک باقی ہے۔ کم سے کم ان کا علمی دبدبہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ ایسے برے دور میں بھی اسلام نئی قوت کے ساتھ دنیا کے الگ الگ حصوں میں نمودار ہوتا رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابتدائی دور سے ہی یہ تسلسل کبھی رکا ہی نہیں۔

اگر بنو امیہ سے عالم عربی کی حکمرانی چھینی گئی تو عبدالرحمن الداخل نے اندلس میں اس سے بھی شاندار حکومت قائم کی اور یوروپ کا استاد بنے۔ اسی طرح جب تاتاریوں کا طوفان ختم ہوا تو اسلامی دنیا اپنی اصل کی طرف لوٹنے میں منہمک ہوگئی۔ جب اندلس مسلمانوں کے ہاتھ سے چلا گیا تو ترکوں نے بازنطینی امپائر کو ختم کرکے ایسی حکومت کی بنا ڈالی جس نے ایک ساتھ تین براعظموں پر حکومت کی۔ تقریبا اسی دور میں مغلوں کی حکومت بر صغیر ہند پر قائم ہوئی اور تمام طبقات کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی شاندار مثال قائم کی۔ آج ہندوستان میں اگرچہ اورنگ زیب کے بہانہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ظلم کے ساتھ حکومت نہیں کی ہے۔

اس پورے تاریخی خاکہ پر اگر آپ نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کو دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ عدل و رحم اور مشترک انسانیت کی حفاظت کی جو ذمہ داری سونپی گئی تھی اس میں انہوں نے جب تک کوتاہی نہیں کی تھی تب تک ان کا بول بالا تھا۔ وہ عدل و انصاف کی علامت مانے جاتے تھے اور دنیا کی قومیں ان کا استقبال کرتی تھیں، لیکن جب بنی اسرائیل کی طرح مسلمان بھی اپنی اصل ذمہ داری میں کوتاہ ثابت ہونے لگے تو خدا کی سنت کے مطابق ان سے بھی عالمی قیادت چھین لی گئی اور ایسی قوموں کے حوالہ کر دی گئی جن کو اس منصب سے بہت پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ خدا کی سنت یہ ہے کہ جو قوم محنت کرے گی وہ انعام پائے گی اس لئے مغرب کی قوموں کو ان کی محنت کا صلہ ملا اور مسلم دنیا اپنی مسلسل غفلت کی وجہ سے حاشیہ پر آگئی۔

آج فلسطین کے مسئلہ پر عالم اسلام کی جو خاموشی ہے وہ اس کے اندر موجود اس وہن اور شدید کمزوری کا نتیجہ ہے جس کی پیشین گوئی زبان نبوت سے کی گئی تھی۔ عالم اسلام کو یاد رکھنا چاہئے کہ تنظیم برائے اسلامی تعاون عرب لیگ اور خلیجی کوآپریشن کاؤنسل نام رکھ لینے سے ان میں اچانک قوت پیدا نہیں ہوجائے گی جب تک کہ وہ اسی پیغام کی طرف دوبارہ نہ لوٹیں جس سے اول روز ان کو عزت ملی تھی۔ یہ پیغام اسلام کا ہے۔ عرب آج بے حیثیت اس لئے ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے اس مشن کو چھوڑ دیا جو ان کا امتیاز تھا۔ کیا یہ بات کم حیرت کی ہے کہ یہود و نصاری جن کے درمیان کا اختلاف ایمان و عقیدہ کا ہے اور جنہوں نے تاریخی طور پر ایک دوسرے کو سخت مشکلات سے دو چار کیا ہے وہ متحد ہوگئے ہیں۔

پورا مغرب آج صہیونی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے لیکن عرب اور مسلم دنیا نہ صرف خاموش ہے بلکہ ان میں سے بعض ممالک وہ ہیں جو صہیونیوں کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ رمضان کے مہینہ میں افطار کی پارٹی اس وقت کر رہے ہیں جبکہ ایک ایک دن میں چار چار سو معصوم فلسطینی بچوں، عورتوں اور سجدوں میں موجود مردوں کو مہلک ترین ہتھیار اور بم و بارود سے اسرائیل تباہ کر رہا ہے۔ کم سے کم اس درجہ کی بے غیرتی کا مظاہرہ اسلامی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ یہ اسلامی دنیا کی سب سے نچلی سطح ہے جہاں تک یہ پہنچ چکی ہے۔

ان کی یہ خاموشی اور بے عملی بلکہ دشمنوں کے ساتھ مل کر وفا شعارانِ اسلام کے ساتھ غداری یہ بتلاتی ہے کہ ان کا صرف ضمیر ہی نہیں مر چکا ہے بلکہ ایمان کی وہ معمولی چنگاری بھی بجھ چکی ہے جو راکھ کے نیچے دبی رہ جاتی ہے اور تھوڑی سی ہوا چلنے پر وہ شعلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وقت اسلامی و عرب دنیا کے لئے سخت احتساب کا ہے۔ اگر آج یہ فلسطین و اقصی کے لئے آواز تک بلند نہیں کر رہے ہیں تو اس کے بھیانک انجام سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کی خاموشی و بزدلی کی وجہ سے آنے والا کل ان کے لئے زیادہ بڑے مسائل نہ پیدا کر دے۔ جہاں تک فلسطین و اقصی کا مسئلہ ہے تو انہیں کامیابی ضرور ملے گی کیونکہ اب وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو پیغام ربانی کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کی شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ r

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS