بڑی بات کہنا ایک بات ہے، اس پر عمل کرنا دوسری بات ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے انتباہ کے بعد ایرانی لیڈروں نے اکثر یہی اشارہ دینے کی کوشش کی کہ ایران کبھی جھکے گا نہیں لیکن اسرائیل نے جس طرح پہلے ہی دن کے حملوں میں ایران کو زبردست نقصان پہنچایا، اس کے بعد اپنے قول کی صداقت پر ایرانیوں کا کھرا اترنا بہت مشکل تھا لیکن انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ دشمن سے آخر تک لڑنا تو پسند کرتے ہیں، اس کے سامنے سرجھکانا پسند نہیں کرتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ایرانی لیڈران صرف باتیں ہی بڑی بڑی کیا کرتے تھے، حالیہ جنگ میں دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ ان کی تیاری بھی شاندار تھی۔ ان کے پاس میزائلوں کا بھنڈار تھا۔ طرح طرح کی میزائلیں تھیں۔ شروع میں سو ایرانی میزائلوں میں سے نوے کو روکنے میں اسرائیل کو کامیابی ملی۔ بعد میں ایسی خبریں آئیں کہ اسرائیل سو میں سے پینسٹھ ہی میزائلوں کو روک پا رہا ہے۔ دو ہفتے اگر اور جنگ چلتی تو یہ اوسط اور زیادہ خراب ہو سکتا تھا، کیونکہ اس وقت تک حزب اللہ اور حوثیوں کے حملوں میں شدت آنے کا بھی امکان بڑھ جاتا۔ اسرائیل کو چوطرفہ حملوں سے نبردآزما ہونا پڑتا جبکہ غزہ جنگ بھی اس نے جاری رکھی ہوئی ہے۔
جنگ کے دوران ایرانیوں نے بڑی تیزی سے فیصلے لیے۔ اپنے بڑے عہدیداروں کی ہلاکتوں کا اثر جنگ پر نہیں پڑنے دیا۔ یہ بات دنیا کے لیے حیران کن تھی۔ جنگ کے دوران ایرانیوں نے اپنے فیصلے سے یہ بتایا کہ وہ بڑے ذہین لوگ ہیں۔ حالات کی مناسبت سے انہوں نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ فیصلہ ایران کی اقتصادیات کے لیے ٹھیک نہیں تھا لیکن عالمی اقتصادیات کو بھی مندی میں ڈال دینے والا تھا، کیونکہ دنیا کے 20 فیصد ایل این جی یعنی لیکویفائیڈ نیچرل گیس(Liquefied natural gas) اور 25 فیصد تیل کی سپلائی اسی بحری راستے سے ہوتی ہے۔ امریکہ کو چین سے یہ کہنا پڑا کہ وہ ایران کو آبنائے ہرمز کو بند کرنے سے روکے۔ اس سے چین کے ایران پر اثر اور اس کی بڑھتی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔
عالمی برادری کو ایران کی جنگی حکمت عملی پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اس پر بھی حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایران کے پاس اتنی میزائلیں آئیں کہاں سے؟ حزب اللہ کو ایران کی پراکسی کہا جاتا ہے۔ حوثیوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران سے مدد ملتی ہے۔ ایران کی مدد سے ہی وہ اپنی میزائلو ں کو جدید سے جدیدتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حماس کو بھی ایران کی طرف سے مدد ملنے کی بات کہی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حزب اللہ، حوثی اپنی میزائلوں سے چونکا چکے تھے، پھر ایرانی میزائلوں سے اسرائیل کی تباہی پر حیرت کیوں ہوتی ہے؟ ایران ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس ایک بڑی فوج ہے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اسے حالات میں الجھائے رکھنے کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن اس نے خود کو خودکفیل بنانے کی جدوجہد کی ہے۔ اس نے وہی کیا جو وہ کرسکتا تھا، اس لیے اس نے جنگی طیارے بنانے کے بجائے دور تک مار کرنے والی میزائلیں بنانے پر توجہ دی۔ طرح طرح کی میزائلیں بنانے پر توجہ دی۔ اصل میں ایران جانتا تھا کہ اس نے اگر بہترین جنگی طیارے بنا بھی لیے تو اسرائیل اس سے بہت دور ہے، اس پر ان طیاروں سے حملہ کرنا ناممکن سا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں بنے امریکی فوجی اڈوں سے ان جنگی طیاروں کو اسرائیل تک پہنچنے نہیں دیا جائے گا، انہیں مار گرایا جائے گا۔
ایران نے امریکی پابندیوں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان پابندیوں کے اثرات کو زائل کرنے کی اس نے بھرپور کوشش کی اور کامیاب ہوا۔ اس نے توجہ اس پر دی کہ کن ممالک سے اسے دوستی رکھنی ہے اور کن ممالک سے نہیں رکھنی ہے۔ ایرانی لیڈروں کے فیصلوں سے اکثریہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جوش میں نہیں، ہوش میں فیصلے لیتے ہیں۔ وہ رشتوں کو بڑی اچھی طرح نبھاتے ہیں چاہے دوستی ہو یا دشمنی۔
حالیہ جنگ کا بظاہر یہ مقصد نظر آیا کہ اسرائیل اور امریکہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کاموں میں وہ ناکام رہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے لیکن انہیں اتنا زیادہ نقصان پہنچنے کی خبریں نہیں ہیں کہ وہ ناکارہ ہوجائیں۔ اب اگر ایران ایٹم بم بنائے گا تو اس کے پاس جواز ہوگا۔ وہ کہہ سکے گا کہ اسے مٹانے کی کوشش ہوئی ہے اور اسے اسی طرح اپنی دفاع کا حق ہے جیسے اسرائیل کو ہے لیکن اس سلسلے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کیا فیصلہ لیتے ہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ اس جنگ سے ایران کو یہ فائدہ ملنے کا امکان ہے کہ اب ایرانی زیادہ متحد ہو جائیں گے جبکہ جنگ سے قبل ان میں بکھراؤ نظر آنے لگا تھا۔ لگتا تھا کہ ایران کا اسلامی انقلاب 50 سال پورے نہیں کر پائے گا۔ خطے کے ملکوں کو بھی ایران کی اصل طاقت کا احساس ہو گیا ہوگا۔ ایران سے ان کے رویے میں اگر تبدیلی آنے لگے تو یہ باعث حیرت نہیں ہونا چاہیے۔