محمد عباس دھالیوال
31 جولائی، 2024 کو جیسے ہی صبح سوشل میڈیا پر فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی خبر پھیلی تو فوراً یقین نہیں ہوا لیکن خبر صحیح تھی۔ ایران کی طرف سے بھی اس کی تصدیق کر دی گئی تھی کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل کر دیا گیا ہے۔ ان کا قتل غزہ جنگ ختم کرانے کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی جدوجہد ان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی جو آخری وقت تک رہی۔ وہ 1962 میں غزہ کے شہر کے مغرب میں الشاطی پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی جن سے ان کے13 بچے ہوئے- 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں۔ہنیہ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی۔2009 میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری انہیں ملی۔ اسماعیل ہنیہ فلسطین کے سابق وزیراعظم، حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پالیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے۔2017 میں انہیں خالد مشعل کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 2023 سے قطر میں قیام پذیر تھے۔بات جدوجہد کی کریں تو اسماعیل ہنیہ 1988 میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے اس میں شامل تھے۔ 1997 میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سکریٹری بن گئے۔ 1988 میں پہلے انتفاضہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا، تاہم وہ فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا۔ اگلے سال انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار انہیں 3 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 1992 میں رہائی کے بعد اسرائیل نے انہیں حماس کے سینئر رہنماؤں کے علاوہ 400 سے زیادہ دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلاوطن کر دیا۔ہنیہ نے ساتھیوں کے ساتھ جلا وطنی کا دور مرج الظہور کیمپ میں گزارا جہاں ان کے اسلامی گروپ کو خاصی میڈیا کوریج ملی۔ وہ دنیا بھر میں مشہور ہوگئے۔
اسماعیل ہنیہ دسمبر1993 میں غزہ واپس آئے۔ اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے 1997 میں احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔ دونوں افراد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندے بن گئے۔ستمبر2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے۔2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس نے اکثریت حاصل کی۔ اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ حماس اور الفتح کے مابین اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر چل نہیں سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہنیہ ہی اس کے سربراہ تھے۔ فلسطینی کاز کے لیے ہنیہ نے بڑی قربانی دی۔ خود تو پوری زندگی جدوجہد کرتے ہی رہے، ایک سے زیادہ اولاد کے سکھ سے بھی محروم ہونا پڑا۔ رواں سال اپریل کے دوسرے ہفتے میں قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی ان کے بیٹے اور پوتے پوتیاں غزہ میں ایک فضائی حملے میں مار ڈالے گئے تھے۔ اب ایران کے دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کا بھی قتل کر دیا گیا ہے۔
عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسماعیل ہنیہ پر رات دو بجے سوتے ہوئے حملہ کیا گیا۔ ان پر ایک میزائل براہ راست داغا گیا۔ حملے میںان کا محافظ بھی جاں بحق ہو گیا۔ قابل ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔ اسماعیل ہنیہ کے جام شہادت نوش فرمانے کی خبر جیسے ہی میڈیا میں آئی تو فلسطین سمیت پوری دنیا خصوصاً مسلم ممالک میں رنج و غم کی ایک لہر دوڑ گئی۔ حماس نے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ بزدلانہ کارروائی ہے جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ حماس کے ترجمان خالد قدومی کا کہنا ہے کہ ایک عزت دار اور خود مختار ملک میں حملہ کیا گیا ہے، اسرائیل نے ایک مجرمانہ فعل کیا ہے جس کا جواب ضروری ہے۔ان کے مطابق، ایران ایک مسلمان ملک ہے۔ مسلم امہ کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ اسرائیل تمام سرخ لکیروں کو عبور کر رہا ہے۔ عالمی برادری کیا کرے گی؟ اسرائیل نے ایک عالمی لیڈر کا قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ کوایکشن لینا چاہیے۔ اسرائیل نے صرف اسماعیل ہنیہ پر نہیں بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کیا ہے۔
ہنیہ کے قتل پر دنیا بھر کے ممالک سے مذمتی پیغامات آرہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بزدلانہ اقدام اور خطرناک پیش رفت ہے۔ ترکیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ اسرائیلی حکومت قیام امن کی خواہاں نہیں ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس ضمن میں روس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل قبول سیاسی قتل ہے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ادھر اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اسرائیلی وزیر کی طرف سے ایک شرمناک بیان سامنے آیا ہے جو ان کی نفرت ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اسماعیل ہنیہ کا قتل دنیا کو کچھ بہتر بنا دے گی۔اسرائیل کے پختہ حامیوں میں شامل امریکہ نے حماس کے رہنما کے قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اس قتل سے واقفیت کے سلسلے میں اس کی طرف سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے۔
خدشہ یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہنیہ کے قتل کے بعد غزہ میں جاری جنگ پھیل سکتی ہے،کیونکہ ان کا قتل اس وقت ہوا ہے جب امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے لیے مذاکراتی عمل جاری تھا اور جلد کسی معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ قطر نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی ہے۔ قطری وزارت خارجہ کے بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ قطر ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔۔۔۔ وہ اس قتل کو گھناؤنا جرم اور کشیدگی میں خطرناک اضافے کی وجہ سمجھتا ہے۔ قطری وزارت خارجہ کے مطابق، یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف روزی ہے۔۔۔۔یہ قتل اور اسرائیل کا غزہ میں مسلسل عام شہریوں کو نشانہ بنانا خطے کو افراتفری کی جانب دھکیل دے گا اور اس سے امن کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔ملیشیا کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ہدف بنا کر قتل کے واقعات سمیت تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔ ملیشیا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امن پسند اقوام ایسی کارروائیوں کی مذمت میں شامل ہوں۔
فی الوقت غزہ جنگ رکنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اب یہی لگنے لگا ہے کہ غزہ جنگ پھیلے گی، کیونکہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت ان ممالک نے بھی کی ہے جو اب تک خاموش تھے۔ ہنیہ کے قتل کی وجہ سے مسلم ممالک پر دباؤ بڑھے گا۔ اس دباؤ کو وہ ٹالتے ہیں یا ردعمل کا اظہار کرتے ہیں یا آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جب تک امریکہ ہے اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، یہ بات مشکل نظر آتی ہے کہ کوئی لیڈر فلسطینیوں کے لیے اپنے ملک اور اقتدار کو خطرے میں ڈالے گا۔ n
[email protected]