عدلیہ کی معصومیت یا جانبداری؟

0

جمہوریت کی بنیاد عدل و انصاف پر ہوتی ہے لیکن جب عدلیہ خود ایک مخصوص بیانیے کی محافظ بن جائے اور تعصب کے پردے میں فیصلے صادر کرے تو انصاف کے جنازے میں بس ایک کیل ہی باقی رہ جاتی ہے۔ حالیہ عدالتی فیصلے میں جس بے شرمی کے ساتھ ’’میاں ٹیاں‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ جیسے نفرت انگیز القاب کو محض غیر شائستہ قرار دے کر جرم کے دائرے سے باہر نکال دیا گیا، وہ اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ عدلیہ یا تو دانستہ طور پر متعصب قوتوں کے ایجنڈے کو سہولت دے رہی ہے یا پھر اس کے فیصلے اندھے، بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں۔ کیا عدلیہ واقعی اتنی ناسمجھ ہے کہ اسے ان الفاظ کے پیچھے چھپے تعصب، استہزا اور نفرت کی بو محسوس نہیں ہوئی؟ یا یہ سب ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے ذریعے مخصوص سیاسی و سماجی مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے؟

یہ مقدمہ جس میں فاضل جج نے ’عدل و انصاف‘ کے گوہرلٹائے ہیں،اردو مترجم محمد شمیم الدین کی شکایت پر درج کیا گیا تھا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ جب وہ ایک آر ٹی آئی درخواست کے حوالے سے معلومات لینے کیلئے متعلقہ افسر ہری نارائن سنگھ کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان کے مذہب کو نشانہ بناتے ہوئے ان کیلئے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ اس پر تعزیرات ہند کی دفعات 298 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 504 (جان بوجھ کر توہین کے ذریعے امن و امان میں خلل ڈالنا) اور 353 (سرکاری ملازم کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے کیلئے مجرمانہ طاقت کا استعمال) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ابتدائی طور پر نچلی عدالت نے ملزم کے خلاف نوٹس جاری کیا تاہم جب معاملہ ہائی کورٹ پہنچا تو اس نے مقدمہ خارج کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ملزم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں عدالت عظمیٰ نے مقدمے کو خارج کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ ’’میاںٹیاں‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ کہنا نامناسب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ ملزم نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے براہ راست امن و امان کو خطرہ لاحق ہو، اس لیے اس پر لگائی گئی دفعات لاگو نہیں ہوتیں۔

عدلیہ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ تعزیرات ہند کی دفعات 298، 504 اور 353 کسی مذاق کا حصہ نہیں بلکہ ایک مظلوم کو تحفظ دینے کیلئے بنائی گئی تھیں۔ لیکن یہاں ہوا کیا؟ ابتدا میں نچلی عدالت نے ملزم کے خلاف نوٹس جاری کیا لیکن جب معاملہ ہائی کورٹ پہنچا تو دباؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بالآخر سپریم کورٹ نے مقدمے کو مکمل طور پر خارج کر دیا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا کہ انصاف اب صرف طاقتوروں کی لونڈی بن چکا ہے اور محروم طبقات کو صرف سرکاری کاغذوں میں مساوات کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

یہ فیصلہ نہ صرف عدلیہ کی نااہلی بلکہ اس کے جانبدارانہ طرز عمل کا بھی ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ کیا عدلیہ کا کام صرف الفاظ کی سطحی تشریح کرنا ہے یا ان کے پس پردہ چھپے ہوئے زہریلے عزائم کو بھی سمجھنا ہے؟ یہ امر ناقابل تردید ہے کہ الفاظ محض آوازوں کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ایک پوری تاریخ، ایک مخصوص سماجی پس منظر، ایک تہذیبی مفہوم اور ایک نفسیاتی اثر چھپا ہوتا ہے۔ ’’میاں ٹیاں‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ جیسے القابات صرف زبان کی پھسلن نہیں بلکہ ایک مکمل نفرت انگیز بیانیہ ہے جو مسلمانوں کی تضحیک اور ان کی حیثیت کو مجروح کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر عدلیہ ان الفاظ کو ’’محض غیر شائستہ‘‘ کہہ کر نظر انداز کر دیتی ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ انصاف کی جڑوںکوکھوکھلاکر رہی ہے۔

عدلیہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ قانون کی روح کو سمجھے نہ کہ صرف الفاظ کے لغوی معانی پر اکتفا کرے۔ اگر کسی مخصوص گروہ کو مسلسل ایسے القابات سے پکارا جائے جس میں ان کی شناخت کو ایک منفی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہو تو کیا یہ محض ایک ’’لفظی چپقلش‘‘ کہلائے گی؟ کیا عدالت کو اس پس پردہ نفرت انگیز ذہنیت اور اس کے سماجی اثرات کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ اگر عدلیہ ایسے معاملات میں خود کو ایک میکانکی انداز میں محدود رکھے گی اور سماجی و سیاسی سیاق و سباق کو نظر انداز کرے گی تو یہ انصاف کے اصولوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہوگا۔

آج جب پوری دنیا میں انسانی حقوق، مذہبی رواداری اور اقلیتی تحفظات پر زور دیا جا رہا ہے، ایسے میں عدلیہ کا یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی روح کے منافی ہے بلکہ یہ ان عناصر کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ عدلیہ اپنے اصل منصب کو پہچانے اور قانون کی تشریح کو محض الفاظ تک محدود رکھنے کے بجائے اس کے وسیع تر تناظر میں پرکھے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عدلیہ کی غیرجانبداری پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے گا اور ایک ایسی ریاست میں جہاں عدلیہ پر سے بھروسہ اٹھ جائے، وہاں جمہوریت کی عمارت محض ایک کھوکھلا ڈھانچہ بن کر رہ جاتی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS