وائرس زدہ معیشت ریلیف کی متقاضی

0

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچایاہے اور سرمایہ دارانہ نظام بدترین بحران کا شکار ہوکر سکڑتاچلاگیا۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار منفی ہندسوں میں جاپہنچی، صورت حال یہ ہوگئی کہ اس بحران کو گزشتہ تین سو برسوں کاسب سے بد ترین عالمی مالیاتی بحران بھی کہا گیا۔ لیکن ایک مخصوص وقفہ کے بعد وقت نے کروٹ بدلی اور بڑے سرمایہ دار ممالک نے اپنی داناو بینا قیادت کے طفیل اس بحران پر قا بو پاناشروع کردیا۔ لاک ڈائون اور نیم لاک ڈائون سے گزر کر اب زیادہ تر ممالک میں حالات معمول کی طرف آرہے ہیں، معاشی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی ہیںلیکن ہندوستان کو اس معاملے میں سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ یہاں کورونا وائرس خون آشام شکل اختیار کرچکا ہے۔ ستم بالائے ستم دوسری لہر ثابت ہورہی ہے،صحت کا عمومی انفرااسٹرکچر زمین بوس ہوچکا ہے، علاج و معالجہ کی کمی کی وجہ سے یومیہ ہزاروں افرادہلاک ہورہے ہیں۔ انسانی صحت سے لے کر صنعت و معیشت اور معاشرت تک اس کی تباہ کاریوں کی زد میں ہیں۔ ملک کی اقتصادیات اور معیشت تہہ نشیں ہوتی جارہی ہے۔
آج سامنے آنے والی تازہ خبروں نے ملک میں بے روزگاری کاجو منظر نامہ پیش کیا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ چیلنج کاحجم روز بروز بڑھ رہا ہے اور اس سے نکلنے میں عرصہ درکار ہوگا۔ کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے گزشتہ تین مہینوں میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں ا ور ملک کے 55فیصد خاندانوں کی آمدنی نصف سے بھی کم ہوچکی ہے۔سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے ایک جائزہ کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح جو اپریل2021 میں8فیصد تھی، مئی کے مہینہ میں بڑھ کر 12فیصد ہوگئی۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران قریب ایک کروڑ ہندوستانی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد کا یہ طبقہ پہلے ہی کم اجرت اورآجروں کے ظلم و جبر کا شکار رہا ہے اور ملازمت چھن جانے کی وجہ سے محنت کشوں اور مزدودوں کے اس طبقہ کیلئے زندگی کی ہر سانس ایک سزابن چکی ہے اورجسم و جان کا رشتہ جوڑے رکھنے کیلئے ناقابل تصور جدوجہد سے گزرنا پڑرہا ہے۔
55فیصد خاندان کی آمدنی میں کمی کا معاملہ بھی کچھ کم سنگین نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دوسری لہر کے دوران کیے گئے لاک ڈائون کی وجہ سے ان افراد کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان افراد کے اوقات کار میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔کورونا کی دوسری لہر کے دوران ان افراد نے کام تو وہی کیا ہے جو پہلے کرتے رہے ہیں لیکن ان کی اجرتیں کم اداکئی گئی ہیں۔ یہ ایک سفاک حقیقت ہے جس دوران عام افراد ملازمتیں کھورہے ہیں اورا ن کی آمدنی کم ہو رہی ہے اسی دوران سرمایہ داروں کی دولت میں دیوہیکل اضافہ بھی ہورہاہے۔ یعنی سرمایہ داروں نے اپنی دولت میں اضافہ کیلئے کورونا وائرس کے نام پر ملازمت پیشہ افراد اور ان کی محنت کو پہلے سے زیادہ لوٹا ہے۔ اس حقیقت کی تصدیق کیلئے حالیہ دنوں میں ملک کے سرمایہ داروں کی دولت میں ہونے والے اضافہ کی رپورٹ ہی کافی ہے۔
سی ایم آر آئی نے کہا کہ کام کاج اور صنعتی و کاروباری سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد اس بحران پر قابو پایاجاسکتا ہے لیکن یہ پوری طرح سے نہیں ہوگا۔اس تحقیقی ادارہ کا کہنا ہے کہ ملازمت سے محروم افراد کو نئی ملازمتیں تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے۔ غیرمنظم شعبے میں نوکریاں مل جانے کی امید توکی جاسکتی ہے لیکن منظم شعبہ میں پہلے کی طرح اچھی ملازمت پانا کہیں مشکل ہوگا اورا س کیلئے ایک طویل عرصہ در کار ہے۔ملازمت سے محروم یہ ایک کروڑ افراد جن کے کاندھوں پر اپنے اپنے خاندان کی کفالت کا بھی بوجھ ہے، بڑھتی مہنگائی اور ہوش رباگرانی کا بھی سامنا کررہے ہیں۔
گزشتہ سال لگائے جانے والے لاک ڈائون کے بعد بے روزگاری کی شرح 23.5 فیصد ہوگئی تھی لیکن مرکزی حکومت نے معیشت کو پٹری پر لانے کیلئے کئی ریلیف اور امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حالات میں کچھ حد تک بہتری آئی۔ لیکن اس بار تو مرکز نے براہ راست لاک ڈائون نہیں لگایا ہے اور خود کواس کی ذمہ داری سے بھی مبریٰ سمجھ رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس بار بھی مرکز کوئی ریلیف پیکیج جاری کرے گا۔ تاہم یہ بہتر ہوتا کہ مرکزی حکومت حالات کی سنگینی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سمت دھیان دے اور ملازمت سے محروم افراد کیلئے راحت اور ریلیف کا سامان کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS