صنعتی ممالک کو اپنا وعدہ نبھانا ہوگا

0

صبیح احمد

عالمی صحت تنظیم یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ماحولیاتی تبدیلی کو 21 ویں صدی میں عالمی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس بات میں ذرا سی بھی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ انسان کو وقت وقت پر مختلف قسم کے چیلنجز درپیش ہوتے رہے ہیں۔ کبھی سنگین بیماری کے طور پر تو کبھی وبا کی شکل میں۔ تمام تر دستیاب وسائل کے استعمال سے انسان اب تک ان چیلنجوں کا بخوبی سامنا کرتا رہا ہے۔ یہ چیلنجز آج بھی موجود ہیں اور انسان ان کے سدباب کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور جدو جہد کر رہا ہے۔ اب ایک نیا چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ چیلنج انسانی وجود ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ یہ ہے گلوبل وارمنگ کا مسئلہ۔ یہ مسئلہ اب اتنا سنگین ہو گیاہے کہ اگر مستقبل میں کرئہ ارض کے گرم ہونے کے رجحان کو کم کرنے میں کامیابی مل بھی جاتی ہے، اس کے باوجود اس کے کچھ اثرات صدیوں تک موجود رہیں گے۔ ان میں سمندری سطح آب میں اضافہ اور سمندر کے پانی کا مزید گرم اور تیزابی ہونا شامل ہے۔ان میں سے کچھ اثرات تو موجودہ درجہ حرارت 1.2 ڈگری سیلسیئس پر ہی محسوس کیے جارہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اثرات بہت جلد سامنے آنے والے ہیں جب درجہ حرارت میں بہت جلد، اگر اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو، 1.5ڈگری سیلسیئس ہو جائے گا۔
گلوبل وارمنگ درحقیقت انسان ہی کی حماقتوں کا نتیجہ ہے اور اس کے اثر سے کرئہ ارض کا موسمیاتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ماحولیات میں تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماحولیات میں تغیر پذیری فطری تقاضوں کے تحت ہوتی رہتی ہے لیکن گزشتہ 3-4 دہائیوں کے دوران ماحولیات میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، کرہ ارض کی تاریخ کے معلوم واقعات میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1980 کی دہائی سے قبل گرین ہائوس گیسز اور اس کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کو سائنس داں اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسی اصطلاحات درحقیقت 80 کی دہائی میں مقبول ہوئیں۔ اول الذکر سے مراد صرف سطح زمین کے گرم ہونے سے ہے جبکہ دوسری اصطلاح (ماحولیاتی تبدیلی) میں ماحولیات پر گرین ہائوس گیسز کے مکمل اثرات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ میں ارضیاتی نظام انسان کے عمل سے گرم ہوتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی فطری تقاضوں کے تحت ہوتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی اصل وجہ گرین ہائوس گیسوں کا اخراج ہے جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی شکل میں ہوتی ہے۔ عموماً توانائی کے حصول کے لیے حیاتیاتی ایندھن کے استعمال سے ان گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ کاشتکاری، فولاد سازی، سیمنٹ کی پیداواراور جنگلات کا بے دریغ خاتمہ گلوبل وارمنگ کی اہم وجوہات ہیں۔ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے زمین پر درجہ حرارت میں اوسطاً دوگنی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ ریگستان کے رقبے میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) اور جنگلاتی آتشزدگی کے واقعات عام بات بن گئی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ سے آرکٹک کے برفیلے پہاڑ (گلیشیئر) پگھل رہے ہیں جس سے سمندروں کی سطح آب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں خطرناک طوفانوں اور دیگر موسمیاتی آفات کا سبب بن رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور انسانوں کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے بہت سی جنگلی حیات اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل طور پر منجمد خطوں کے پگھلنے سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج کا خطرہ ہے جس سے یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا۔ سمندروں کا پانی گرم سے گرم تر ہو رہا ہے، دنیا بھر میں برفانی خطے تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کے اثرات دنیا میں بسنے والی ہر مخلوق پر پڑیں گے۔ نیلگوں سیارہ اس وقت حقیقی خطرات سے دوچار ہے جن کی سنگینی مختلف نوعیت کی ہے اور سب انسان کے پیدا کردہ ہیں۔ سائنسدانوں کو اب اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے سمندر 1970 سے اب تک لگاتار گرم ہو رہے ہیں۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حدت کا 90 فیصد سمندر کے پانیوں نے جذب کر لیا ہے اور سمندر کا پانی جس رفتار سے گرم ہوا ہے وہ 1993 کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جمی برف 2007 اور 2016 کے درمیان اس سے پہلے کے 10 سالوں کے مقابلے 3 گنا زیادہ رفتار سے پگھلی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی اور اس سے آگے یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا۔ اس صورت حال کے ساحلی اور سمندر کے ساتھ نشیبی علاقوں میں بسنے والے کم سے کم 70 کروڑ افراد کے لیے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ کچھ جزائر اور ساحلی علاقے 2100 تک انسانی آبادی کے قابل نہیں رہیں گے۔ سمندروں سے دور کی آبادیاں بھی سمندروں اور برفانی خطوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے تغیر سے نہیں بچ پائیں گی۔
مستقبل میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے اور فضاسے انہیں ہٹا کر درجہ حرارت کے اضافہ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہوا سے پیدا ہونے والی اور شمسی توانائی کا استعمال عام کرنا پڑے گا، کوئلہ کے استعمال کو دھیرے دھیرے ختم کرنا پڑے گا اور توانائی کے دیگر محفوظ وسائل کے استعمال کو رائج کرنا پڑے گا۔ ڈیزل اور پٹرول جیسی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کے عام استعمال سے گیسوں کے اخراج کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی روکنے اور زیادہ سے زیادہ پودے لگانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 2015 کے پیرس ایگریمنٹ کے تحت دنیا کے ممالک اجتماعی طور پر گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کر کے درجہ حرارت کو 2 ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے پر رضامند ہو ئے تھے لیکن اس معاہدہ کے باوجود درجہ حرارت اس صدی کے اختتام تک تقریباً 2.7 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جائے گا۔ درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے لیے ان مضر گیسوں کے اخراج کو 2030 تک آدھا اور 2050تک صفرتک پہنچانے کا ہدف حاصل کرنا ہوگا۔ ان اہداف کی حصولیابی کے لیے لازمی طور پر حکومتوں کے ذریعہ بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو یہ اور زیادہ مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم قدم یہ ہے کہ صنعتی یا ترقی یافتہ ممالک کو 2009میں کیا گیا اپنا وہ وعدہ ایمانداری کے ساتھ نبھانا ہوگا جس کے تحت انہوں نے ترقی پذیر ملکوں کو 2020 تک سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کی حامی بھری تھی تاکہ یہ ممالک اپنی معیشتوں کو ماحولیات دوست بنانے کی سمت میں قدم آگے بڑھا سکیں۔
برطانیہ کے گلاسگو میں منعقدہ بین الاقوامی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس ’سی او پی26-‘ میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر اقدامات ترقی یافتہ ملکوں سے وقت پر اور خاطر خواہ مالی تعاون ملنے پر منحصر ہے۔ ہندوستان نے یہ بھی کہا کہ ماحولیات کے حوالے سے اہم پیمانوں کو طے کرتے وقت سربراہ کانفرنس میں کیے گئے عزائم کو بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS