پنکج چترویدی
کہتے ہیں کہ بھارت تہواروں کا ملک ہے۔ ہر دن کسی نہ کسی مذہب، فرقے، عقیدے یا لوک کے درجنوں تہوار ہوتے ہیں۔ مذہب-عقیدہ کبھی بھی طاقت کے مظاہرے یا دوسرے عقائد سے بہتر بتانے کا ذریعہ نہیں رہا۔ اس بار رام نومی پر ملک کے مختلف حصوں میں جس طرح فسادات ہوئے،وہ دنیا میں بھارت کی مختلف تہواروں کو منانے والے ملک کی شبیہ پر برعکس اثر ڈالتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ سوشل میڈیا ٹکڑوں میں ویڈیوکلپ سے بھرا ہوا ہے اور ہر فریق صرف دوسرے کو قصوروار بتاکر فرقہ پرستی کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جہاں بھی فسادات ہوئے، وہاں کچھ سیاستداں تھے اور ہر جگہ انتظامیہ نکما ثابت ہوا۔ نہ خفیہ پولیس نے کام کیا اور نہ ہی سیکورٹی میں تعینات فورسز نے مستعدی دکھائی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بہت سی جگہوں پر پولیس خود فرقہ پرست ہوگئی ہے اور وہ کئی جگہوں پر فسادیوں کی مدد کرتی نظر آئی۔ یہ حالیہ بہار-جھارکھنڈ یا بنگال کے فسادات میں ہی نہیں، بلکہ تین سال پہلے کے دہلی فسادات میں بھی نظر آیاتھا۔
ذرا غور کریں کہ رام نومی کے واقعات محض 24 گھنٹوں کے اندر کے ہیں، یہ واقعات زیادہ تر ان علاقوں میں ہوئے جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات یا تو بہت کم ہوتے ہیں یا پھر کئی دہائیوں سے وہاں ایسا ہوا نہیں تھا، یہ تمام واقعات ایسی حرکتوں سے شروع ہوئے تھے جن کا تذکرہ آزادی سے ٹھیک پہلے یا اس کے بعد 1955تک ملتا رہا ہے۔ ایک طبقہ جلوس نکالتا ہے، اسلحہ لہراتے ہوئے تیز آواز میں میوزک اور مسجد آتے ہی اس کے سامنے زیادہ شجاعت کا مظاہرہ۔ پھر کہیں سے پتھر چلنا اور پھر آتشزدگی۔ نہ پولیس اور نہ ہی سماج نے جلوس نکالنے کے راستوں پر حساسیت دکھائی، نہ ہی گانے یا میوزک یا نعروں پر انتظامیہ نے بروقت پابندی لگائی، نہ ہی ایسے مواقع سے پہلے جلوس کے راستوں پر گھروں پر پتھر وغیرہ کی چیکنگ پر غور کیا۔ ذرا دھیان سے دیکھیں توجو لوگ کٹار یا تلوار لہرا رہے ہیں یا اقتصادی طور پر پسماندہ طبقے سے ہیں، بہت سے نشے میں بھی ہیں اور ان کے لیے مذہب ایک آمرانہ نظام ہے جس میں دوسروں کوکچل دینا ہے۔ کیا یہ عدم برداشت ہے، مذہبیت ہے، انتہا پسندی ہے یا باہم کم ہوتا اعتماد یا پھر کوئی بہت بڑی سازش؟ یہ بے حد سنگین مسئلہ ہے اور اس کا ناموافق اثر ترقی پر بھی پڑتا ہے۔ آج جب آٹے-دال کا بھاؤ لوگوں کا دماغ گھمائے ہوئے ہے، بے روزگاروں کی قطار بڑھتی جارہی ہے، ملک کا کسان بے وقت بارشوں کی وجہ سے اپنی 30 سے 35 فیصد فصل کے خراب ہونے سے فکرمند ہے، ایسے میں مذہب ذات، خوراک، لباس، عقیدے، عبادت کے طریقے کے نام پر انسان کا انسان سے متصادم ہو جانا یا اس کا قتل کر دینا،اس آئی ایس آئی ایس کی حرکتوں سے کم نہیں ہے جو دنیا پر دہشت گردی کا راج چاہتی ہے۔
المیہ ہے کہ انتظامیہ کے لیے یہ صرف نظم و نسق کا مسئلہ ہوتا ہے اور لیڈروں کے لیے بیان بازی اور کیچڑ اچھالنے کا ذریعہ، جبکہ اصل میں یہ ناسور بنتا سماجی مسئلہ ہے جو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی طرح ہے۔ اپنے اطراف پر نظر رکھیں کہ کہیں کوئی گھناؤنی حرکت تو نہیں کر رہا ہے۔ جس کاروبار، تجارت، جائیداد، انسانی وسائل اور سب سے بڑی بات اعتماد بحال کرنے میں انسان اور ملک کو دہائیاں لگتی ہیں، اسے تباہ کرنے میں لمحہ بھی نہیں لگتا۔ محض ایک لمحے بھر کے اشتعال ،دشمنی یا سازش کی آگ میں پوری انسانیت اور رشتے جھلس جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں شبہات، انتقام اور سیاسی داؤ پیچ کی عبارتیں۔ اس نکتے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بھارت میں ہندو اور مسلمان گزشتہ1200برس سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے تک تو پورے ملک پر مغل یعنی مسلمان حکمراں رہے۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ 1857کے انقلاب کے بعد انگریزوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات بہت گہرے ہیں اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ رہتے ان کا اقتدار میں رہنا مشکل ہے۔ ایک سازش کے تحت 1857کی بغاوت کے بعد مسلمانوں پر ظلم کیا گیا، صرف دہلی میں ہی27 ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ انگریز حکمرانوں نے دکھایا کہ ہندو ان کے قریب ہیں۔ لیکن جب 1870کے بعد ہندوؤں نے بغاوت کی آواز بلند کی تو انگریز مسلمانوں کو گلے لگانے لگے۔ یہی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی تاریخ لکھنے، افواہیں پھیلانے میں کام آتی رہی۔
یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ 1200سال کے شریک سفر میں فسادات کا ماضی تو پرانا ہے نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ احمدآباد میں 1714، 1715،1716 اور1750 میں ہندو مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد 1923-26 کے دوران کچھ جگہوں پر معمولی کشیدگی ہوئی۔ 1931 میں کانپور کا فساد خوفناک تھا، جس میں گنیش شنکر ودیارتھی کی جان چلی گئی تھی۔ فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ اس موضوع پر پروفیسروپن چندرا، اصغر علی انجینئر سے لے کر حکومت کی طرف سے بنائے گئے 100 سے زیادہ انکوائری کمیشنوں کی رپورٹیں تک گواہ ہیں کہ جھگڑے نہ تو ہندوتوکے تھے اور نہ ہی اسلام کے۔ کہیں زمینوں پر قبضے کی کہانی ہے تو کہیں ووٹ بینک تو کہیں غیر قانونی دھندے۔
1931 میں کانپور میں ہوئے فسادات کے بعد کانگریس نے چھ رکنی ایک تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔ 1933 میں جب اس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر آنی تھی تو اس وقت کی برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی تنوع کے باوجود صدیوں سے یہ دونوں معاشرے نایاب ثقافتی امتزاج پیش کرتے آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں دونوں فرقوں کے درمیان تناؤ کو جڑ سے ختم کرنے کے طریقوں کی تقسیم تین زمروں میں کی گئی- مذہبی-تعلیمی، سیاسی-معاشی اور سماجی۔ اس وقت تو برطانوی حکومت نے اپنی کرسی ہلتی دیکھ کر اس رپورٹ پر پابندی لگائی تھی۔ آج کچھ سیاستداں اپنے سیاسی داؤپیچ کو سادھنے کے لیے اس اہم رپورٹ کو بھلا چکے ہیں۔
مسلمان نہ تو نوکریوں میں ہیں نہ ہی صنعتی گھرانوں میں، ہاں دستکاری میں ان کا دبدبہ ضرور ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ہنر مند زیادہ تر مزدور ہی ہیں۔ اگر ملک میں فسادات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر فساد مسلمانوں کے منہ کا نوالہ چھیننے والا رہا ہے۔ بھاگلپور میں بنکر، بھیونڈی میں پاورلوم، جبل پور میں بیڑی، مراد آباد میں پیتل، علی گڑھ میں تالے، میرٹھ میں ہینڈلوم۔۔۔ جہاں کہیں فسادات ہوئے مزدوروں کے گھر جلے، ان میں کاٹیج انڈسٹری برباد ہوئی۔ ایس گوپال کی کتاب ’دی اناٹومی آف دی کنفرنٹیشن‘ میں اَمیہ باگچی کی تحریر اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ان معمولی پیشوں سے بھی اجاڑ رہے ہیں جو ان کے گزربسر کا واحد سہارا ہیں۔ (پری ڈیٹری کمرشیلائزیشن اینڈ کمیونزم اِن انڈیا)۔ گجرات میں فسادات کے دوران مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگانا، ان کا معاشی بائیکاٹ وغیرہ گواہ ہیں کہ فسادات مسلمانوں کی معاشی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ جان لیں کہ اترپردیش میں مسلمانوں کے پاس سب سے زیادہ اور سب سے زرخیز زمین اور دودھ دینے والے مویشی مغربی اترپردیش میں ہی ہیں۔
یکبارگی ایسا لگتا ہو کہ فسادات صرف کسی قوم یا فرقے کو نقصان پہنچاتے ہیں، اصل میں اس سے نقصان پورے ملک کی ترقی، اعتماد اور کاروبار کا ہوتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ فسادات کی اصل وجہ، سازش کو سامنے لایا جائے اور میدان میں لڑنے والوں کی جگہ ان لوگوں کو قانون کا سخت سبق سکھایا جائے جو گھروں میں بیٹھ کر اپنے ذاتی مفاد کے لیے لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں اور ملک کی ترقی کو پٹری سے نیچے لڑھکاتے ہیں۔ کیا مذہب کو سڑک پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ذریعہ بنانے سے روکنے کے لیے سبھی عقائد کو غور نہیں کرنا چاہیے؟ ویسے بھی اس طرح کے جلوس سڑک جام، عام لوگوں کی زندگی میں رخنہ ڈالنے اور تناؤ کا باعث بنتے جا رہے ہیں اور بدقسمتی ہے کہ اب ہر مذہب کے لوگ سال میں دو چار بار ایسے جلوس نکال ہی رہے ہیں۔
[email protected]