ایم اے کنولؔ جعفری
ہوا اور پانی کے علاوہ روٹی،کپڑا اور مکان انسان کی تین اہم بنیادی ضرورتیں ہیں۔ خانہ بدوش کی طرح مکان کے بغیر طویل مدت گزارنے کے علاوہ ضرورت سے کم لباس میں بھی کسی حد تک گزارہ کیا جاسکتا ہے،لیکن روٹی کی کمیابی سے زیادہ دنوں تک گزراوقات مشکل ہے۔مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والے ممالک سے بھری دنیا میں ہر چار سیکنڈ میں بھوک سے ایک شخص کی درد ناک موت نہ صرف انسانیت کو شرم سار کرنے والی ہے،بلکہ آدمیت اور تہذیب کے منہ پر زوردار طمانچہ بھی ہے۔اس عالمی بحران کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کے بغیر نہ تو بھوک پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی موت کی وارداتوں میں ہونے والے اضافے پر قدغن لگایا جا سکتا ہے۔اس بابت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کی رپورٹیں بے حد تکلیف دہ ہیں۔
عالمی سطح کی238 غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) نے بھوک کے بڑھتے بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیا میں ہر چار سیکنڈ میں ایک شخص کو اپنی جان کی بازی ہارنے کو خوف ناک حالت سے تعبیر کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے نیو یارک میں موجود عالمی رہنماؤوں کو خطاب کرتے ہوئے ایک خط میں آکسفیم، سیو دی چلڈرن اور پلان انٹر نیشنل سمیت75ممالک سے تعلق رکھنے والی ان تنظیموں نے دنیا بھر میں آسمان چھوتی بھوک کی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا ۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ34کروڑ50لاکھ افراد کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ تعداد 2019کے مقابلے د گنی سے بھی زیادہ ہے۔عالمی رہنماؤوں نے21ویں صدی میں قحط سالی نہیں آنے دینے کے پختہ عزائم کئے تھے،لیکن اس کے باوجود صومالیہ سمیت کئی ممالک میں ایک بار پھر قحط کے خدشات نمودار ہو رہے ہیں۔ ان کے مزید خطرناک شکل و صورت اختیار کرنے کے قوی امکان ہیں۔ دنیا بھر کے45 ممالک میں پانچ کروڑ افراد فاقہ کشی کی دہلیز پر ہیں۔ اس بابت خوف ناک تخمینے کی نشان دہی کرتے ہوئے ہوئے غیر سرکار تنظیموںکا کہنا ہے کہ تقریباً 19,700 افراد روزانہ بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ نئی تکنیکوں اورترقیاتی پروگراموں کے لیے جانی جانے والی موجودہ صدی میں جہاںزراعت اور اناج کی خاطر خواہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے اپنائی جانے والی جدیدتر ٹکنالوجیز کے باوجود قحط کے عنوان پر بات چیت کرنا انتہائی افسوس ناک صورت حال سے کم نہیں ہے ۔ یہ دراصل نہ توکسی ایک براعظم کی صورت حال ہے اور نہ ہی بھوک یا بھوک کے سبب ہونے والی ا موات کی کوئی ایک وجہ ہے۔ ناانصافی کی موجودہ صورت حال پوری انسانیت کے لیے ہے۔
اقوام متحدہ کے28ستمبر 2022کوختم ہونے والے 77 ویں15 روزہ سالانہ اجلاس میں دنیا کو درپیش مصائب و آلام اور آفات ارضی و سماوی اور بھوک و افلاس سمیت کئی موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ اس اجلاس میں دنیابھر کے 199ممالک کے سربراہان یا با اختیار نمائندوں نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی ۔تعلیم، صحت، زراعت،تجارت،صنعت وحرفت، روزگار، آمدورفت، معاشرت، طرز حیات ،نظم و نسق اور ربط و ضبط سمیت زندگی کے ہر ایک زمرے میں لگاتار ترقی اور آسائشوں کی گواہ بنتی21ویں صدی میں جہاں انسان چاند کو فتح کرنے کے بعد اپنا خلائی سفر جاری رکھتے ہوئے مریخ و زہرہ کو ٹارگیٹ کر رہا ہے،وہیں ہزاروں قسم کے وسائل کے باوجود انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل خورونوش کی فراہمی سے کوسوں دُور ہے۔عالمی رضاکار اداروں نے ہر چار سیکنڈ میں ایک شخص کی بھوک سے موت کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اس سمت میں ضروری اقدامات کئے جانے کا زوردار مطالبہ کیا ہے۔ اس اجلاس میں کی جانے والی اُمید اور کئے گئے مطالبے کا عالم انسانیت پر کیا اثر پڑے گا،یہ آنے والا وقت بتائے گا، لیکن بھوک کی شدت سے نمٹنے کے لیے کی گئی سفارشات کے بہتر نتائج سامنے آنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
20ویں صدی میں70لاکھ سے 1.25کروڑ افراد قحط سالی سے ہلاک ہوئے۔ان میں 50 فیصدی چینی تھے۔2021میں سب صحارا اور جنوبی افریقہ سب سے زیادہ متاثر رہا۔ برونڈی، کیمرون ، کانگو، صومالیہ،چاڈ،اریٹیریا،شام اور یمن میں خاصہ اثر دیکھا گیا۔پڑوسی ملک افغانستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔دنیا کے 198 ممالک میں ہندوستان اور پاکستان سمیت ایسے20 ممالک شامل ہیں،جہاںقحط سالی تو نہیںہوئی،لیکن خوراک کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے عالمی صحت کی جائزہ رپورٹ کے مطابق ہر سال ناقص خوراک(Food poisoning) سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ ان میں تین سے چار لاکھ تک افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کی بات کریں،تو گلوبل ہنگر انڈیکس کی2021کی درجہ بندی میں116ممالک میں بھارت 101 ویں مقام پر ہے ۔ 2020 میں بھارت کی درجہ بندی94ویں مقام پر تھی۔پڑوسی ممالک کی پوزیشن ہمارے ملک سے بہتر ہے ۔ پاکستان کی رینک 92، نیپال و بنگلہ دیش کی76اور سری لنکا کی درجہ بندی 65 ہے۔ 2021 کی درجہ بندی میں صرف 15ممالک ہی ہندوستان سے نیچے ہیں۔لیکن پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں کمی کے علاوہ بچوں میں اسٹنٹنگ اور ناکافی خوراک کی وجہ سے غذائی قلت کی کشادگی میں بہتری درج کرائی ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس جرمن کی غیر منافع بخش تنظیم کے ذریعہ مرتب اور شائع کی جانے والی سالانہ رپورٹ ہے، جس کا مقصدعالمی،علاقائی اور ملکی سطح پر بھوک کا پتہ لگانا ہے ۔ اسکورنگ میں چار اشارے نوٹ کئے جاتے ہیں۔کم غذائیت یعنی آبادی کا وہ حصہ جس کی کیلوری کی مقدار نا کافی ہو۔چائلڈ اسٹنٹنگ یعنی پانچ برس کم عمر کے بچوں کا وہ حصہ جن کا قد اپنی عمر کے لحاظ سے کم ہو۔چائلڈ ویسٹنگ یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا وہ حصہ جن کا وزن اُن کے قد کے لحاظ سے کم ہو اور بچوں کی اموات یعنی ناکافی غذائیت اور غیر صحت مند ماحول کے تحت پانچ برس سے کم عمرکے بچوں کی شرح اموات۔
سوال یہ ہے کہ زرو زراعت کے میدان میں ترقی کے نئے طول و عرض قائم کرنے کے باوجود دنیا بھر کے کروڑوں افراد بھوک اور فاقہ کشی کا شکار کیوں ہیں؟ہر شخص تک خوراک کی رسائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟غذائی بحران کی اصلی وجہ کیا ہے؟ کیااس کا سبب زخیرہ اندوزی ہے؟کہیں اس کی اہم وجہ خورونوش اورعام اجناس پرزرداروں کا قبضہ تو نہیں؟ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نا انصافی اور غیربرابری کے سبب کچھ لوگوں کے گوداموں میں موجود اناج ،غریب،مزدور اور مجبور کی پلیٹ تک روٹی پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہوا ہے۔ہر سطح پر زیادہ تر انسان اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کے باپ،بھائی، رشتہ دار یا پڑوسی کے گھر میں کتنے دنوں سے چولہا نہیں جلا ہے۔ شادی،نکاح اورعقیقہ جیسی تقاریب میں کم سے کم رقم خرچ کر کے کام چلایا جا سکتا ہے۔کسی بھی تقریب میںبھانت بھانت کے کھانوں کی جگہ ایک قسم کے کھانے سے دعوت کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔مختلف اقسام پر خرچ کی جانے والی رقم بچا کر اس سے غربا کے پیٹ کی آگ بجھائی جا سکتی ہے،لیکن نام و نمود اور دکھاوے کا جنون انھیں اس عمل سے مانع رکھتا ہے۔ پہلے کنبے کے افراد ایک چھت کے نیچے ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اچانک آنے والے مہمان بھی دسترخوان کے برکتی کھانے میں شامل ہو کر شکم سیر ہو جاتے تھے۔اَب دستر خوان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ کھانے کئی قسم کے ہونے کی وجہ سے بچنا لازمی ہے۔ استعمال نہیں ہونے والا ایسا کھانا ڈسٹ بن میں ڈالنا منظور،لیکن اسے کسی مسکین کے دروازے تک پہنچانے میں شان گھٹتی ہے۔
کھانے کی بربادی کا ذکر کریں تودنیا بھر سے ہر سال قریب 40 لاکھ مسلمان حج کے لیے مکہ اور مدینہ کا سفر کرتے ہیں۔حج کے ارکان ادا کرنے کے علاوہ مسجد نبوی میں40نمازیں پڑھنے اور مکہ میں قیام میں ایک حاجی کو40-45روز لگتے ہیں۔حاجیوں کی آمدورفت کا سلسلہ مہینوں جاری رہتا ہے۔ اس دورانیہ میں سعودی عرب کے مخیر شیوخ ٹرکوں میں کھانے کے پیکٹس بھر کر رہائش گاہوںکے پاس لاتے ہیں۔مفت تقسیم ہونے والے کھانے میںتقریباً آدھا کھانا بچ کر ڈسٹ بن کی زینت بنتا ہے ۔ برباد ہونے والے اس کھانے سے روزانہ لاکھوں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔حج کے علاوہ باقی ایام میں سال بھرعمرہ کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں ہونے والے عمرے کے دوران جتنے خورونوش کے سامان کا استعمال عمرہ اداکرنے اور حرمین شریفین کے نزدیک رہائش پزیر غیر ملکی مزدور کرتے ہیں،اُس سے کئی گناہ زیادہ کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے خدمت گاراس کھانے کو دسترخوان میں لپیٹ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں،جسے ٹرکوں میں لاد کر شہر سے باہر پھینک دیاجاتا ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر کے ہوٹلوں میں ضرورت سے زائد بچا کھانا ڈسٹ بن میں ڈالا جاتا ہے۔ کئی فلاحی تنظیمیں اس قسم کے فاضل کھانے کو جمع کر انھیں ضرورت مندوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں،لیکن ان کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی قائم کردہ فاؤنڈیشن کی جانب سے ستمبر2022میں تجارتی شہردبئی کی سپر مارکیٹوں میں غربا و ضرورت مندوں کے لیے ایسی 10 وینڈنگ مشینیں لگائی گئی ہیں،جن میں کمپیوٹرٹچ ا سکرین کی مدد سے مختلف قسم کی گرما گرم روٹیاں نکالی جا سکتی ہیں۔فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر زینب جمعہ التمیمی کے مطابق یہ فیصلہ دنیا میں خورونوش کی بڑھتی قیمتوں اور غربت کی شرح میں اضافے کیو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔بھوک پر قابو پانے کی سمت اس طرح کا نظم دیگر ممالک کے سربراہوں کی جانب سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
دو اکتوبر2022کوآر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے خود انحصاری کے موضوع پرگفتگو میں بڑھتی معاشی عدم مساوات کو ملک کے لیے بڑا مسٗلہ بتایا۔دنیا کی چھ بڑی معیشتوں میں شامل ہندوستان میں غربت اور بے روزگاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی آمدنی کے 20 فیصد حصے پر سب سے اعلیٰ ایک فیصد لوگوں کا قبضہ ہے۔ 50فیصد آبادی کے پاس ملک کی آمدنی کا 13 فیصد حصہ ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ملک کے ایک بڑے حصے میں صاف پانی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی ہے۔20کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔23کروڑ لوگوں کی روزانہ کی آمدنی 375 روپے سے کم ہے۔قریب چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔انھوں نے شہریوں کی جدوجہد و تعلیم کی خراب سطح، موسمیاتی تبدیلی اور کئی جگہ حکومت کی نا اہلی کوغربت کی وجہ بتایا۔ بھوک پر قابو پانے کے لیے جہاں بین الاقوامی سطح پر مزید کارروائی اور نئے منصوبوں کی درکار ہے،وہیں ہندوستان میں بھی اس جانب ٹھوس قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
( مضمون نگار سبکدوش ٹیچر، سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]
انسانیت کو شرمسار کرتی عام آدمی کی بھوک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS