محمد فاروق اعظمی
بدعنوانی کی دیمک جب ریاستی ڈھانچے کو چاٹنے لگے تو انصاف کی مشعل ہی اندھیروں کو چیر سکتی ہے۔ مغربی بنگال میں اسکول سروس کمیشن (ایس ایس سی) کے 2016 کے بھرتی عمل میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ اسی روشن چراغ کی مانند ہے جو ہزاروں اہل بے روزگاروں کیلئے امید کی کرن ثابت ہوا۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ جمہوریت میں قانون کی بالا دستی قائم ہے اور وہ دن ہوا ہو گئے جب وزرا اور حکومتی اہلکار بدعنوانی کے تحت قانون سے بالا تر سمجھے جاتے تھے۔
مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے جس طرح سے ریاست کے تعلیمی شعبے کو لوٹاوہ ناقابل معافی جرم ہے۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، جو خود کو عوامی خدمت گزار کہتی ہیں، وہ اس اسکینڈل کے دفاع میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی وہ نہ صرف یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کی حکومت نے منظم انداز میں بدعنوانی کو فروغ دیابلکہ وہ اس کرپشن کی ذمہ داری اپنے وزیروں اور اداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔
ان کی سربراہی میں ریاستی کابینہ نے غیر قانونی طور پر اضافی عہدے تخلیق کیے تاکہ بدعنوانی کو چھپایا جا سکے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے اہل امیدواروں کے حق پر ڈاکہ ڈالا، نا اہل افراد کو رشوت کے عوض نوکریاں بیچیںاور جب قانون کی گرفت مضبوط ہوئی تو اپنی مجرمانہ غفلت کو انسانیت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ نے 3اپریل2025جمعرات کے روز نہایت دانشمندانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلہ سناتے ہوئے پورے بھرتی عمل کو کالعدم قرار دے دیا،جس کے نتیجے میں 25,752 غیر قانونی نوکریاں منسوخ ہو گئیں۔ خاص طور پر، ان سات ہزار افراد کو نوکری سے برطرف کرنے اور تنخواہیں واپس کرنے کا حکم دیا گیا جنہیں ’نااہل‘ کے طور پر نشان زد کیا گیاہے۔ ان میں وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے خالی جوابی پرچے جمع کروا کر ملازمتیں حاصل کیں،پینل کے باہر سے غیر قانونی تقرریاں حاصل کیں یا جن کی تقرری پینل کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہوئی۔
یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو عدل و انصاف کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتا ہے۔ عدالت نے نہ صرف بدعنوانیوں کو بے نقاب کیا بلکہ دوبارہ شفاف بھرتی کیلئے راہ بھی ہموار کی۔ مزید برآں، ان امیدواروں کو عمر میں رعایت دی گئی ہے جو اس بدعنوانی کا شکار ہوئے تاکہ وہ دوبارہ امتحان میں شامل ہو سکیں اور اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر روزگار حاصل کر سکیں۔
فیصلہ آنے کے بعد ممتابنرجی کے بیانات اس قدر متضاد ہیں کہ وہ اپنی ہی حکومت کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت بن چکے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتی ہیں کہ ان کی حکومت نے بدعنوانی میں کوئی کردار ادا نہیں کیاتو دوسری طرف وہ خود اعتراف کرتی ہیں کہ سابق وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے رشوت کے عوض نوکریاں بیچیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ممتابنرجی کو اس بدعنوانی کا علم تھا تو انہوں نے تب کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟
فیصلہ آنے کے بعد ریاستی سکریٹریٹ نوانومیں اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے انتہائی معصومیت کے ساتھ ایک بار پھر انسانیت کی دہائی اور سوالات اٹھائے ہیں،مگر یہ سوال خود ان کی اپنی سیاست پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگائی گئی تھی۔ اب وہ موجودہ چیف جسٹس سے بھی یہی توقع رکھتی ہیں کہ وہ اسی ’انسانیت‘ کا مظاہرہ کریں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی کو سیاسی سہولت کے تابع کیا جا سکتا ہے؟
ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر ارادہ ہو تو راستہ بھی نکل آتا ہے۔ مگر کیا یہ ارادہ صرف اپنے مفادات تک محدود ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو مثبت انداز میں لے رہی ہیں اور قانونی جنگ جاری رہے گی،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ محض ان لوگوں کیلئے ہے جن کی حمایت ان کی سیاست کو فائدہ دے سکتی ہے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ ان کی حکومت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہے جو انصاف سے محروم رہے مگر یہ دعویٰ خود ایک بڑا سوال ہے۔ اگر واقعی ان کی حکومت حق و انصاف کی علمبردار ہوتی تو لاکھوں نوجوان سڑکوں پر نکل کر روزگار اور میرٹ کی بحالی کیلئے دہائی نہ دے رہے ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ انہیں انصاف کی نہیں بلکہ اس فیصلہ کے سیاسی اثرات کی فکر ہے ورنہ وہ محروم اساتذہ اور بے روزگار نوجوانوں کے اہل خانہ کی بابت یہ نہ کہتیں کہ اگر وہ غیر فعال ہوگئے تو بی جے پی اور سی پی ایم بھی فعال نہیں رہیں گی۔
دوسری طرف وہ ان اساتذہ سے بھی ملنے جا رہی ہیں جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھونے کے بعد انصاف کیلئے ایسوسی ایشن بنائی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب یہی لوگ انصاف کیلئے دہائیاں دے رہے تھے،تب ممتا سرکار کی انسانیت کہاں تھی؟ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ترنمول حکومت نے جان بوجھ کر اہل امیدواروں کو ان کے حق سے محروم رکھا اور بدعنوان عناصر کو نوازا۔ اب جب کہ عدالت نے ان کے غیر قانونی اقدامات پر کاری ضرب لگائی ہے،ممتا بنرجی ہمدردی کی آڑ میں اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
مغربی بنگال کے عوام نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ یہ وہی عوام ہیں جن کے بچوں کو ان کے حق سے محروم کیا گیا،جن کے خواب نوٹوں کے بنڈلوں کی نذر کر دیے گئے اور جنہیں اپنی قابلیت کے باوجود بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا کہ قانون اندھا نہیں ہوتا اور بالآخر سچائی کی جیت ہوتی ہے۔
یہ فیصلہ صرف 26,000 نوکریوں کی منسوخی کا اعلان نہیں بلکہ ریاست میں بدعنوانی کے خلاف بغاوت کی بنیاد ہے۔ وہ تمام سیاستداں، بیوروکریٹس اور سرکاری اہلکار جو کرپشن میں ملوث ہیں،ان کیلئے یہ ایک انتباہ ہے کہ انصاف کا شکنجہ ان کے گرد بھی کس سکتا ہے۔
یہ فیصلہ ان تمام اہل امیدواروں کیلئے ایک نئی امید ہے جو برسوں سے اپنی قابلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ لوگ جو اپنے خوابوں کی راہ میں بدعنوانی کو رکاوٹ پاتے تھے،اب کھلے آسمان کے نیچے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا سکیں گے۔
یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف مغربی بنگال بلکہ پورے ہندوستان کے تعلیمی نظام کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔ یہ حکومتوں کو باور کراتا ہے کہ بدعنوانی کا انجام صرف شرمندگی نہیں بلکہ قانونی کارروائی بھی ہے۔ ممتا حکومت اور اس کے کرپٹ وزرا کیلئے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ قانون کی لاٹھی بے آواز ضرور ہے،مگر جب چلتی ہے تو تخت الٹ دیتی ہے۔
مغربی بنگال میں ترنمول حکومت کی کرپشن ایک کھلی حقیقت بن چکی ہے،جس کے ثبوت عدالت کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ کوئی بھی حکومت قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ مغربی بنگال کے عوام اس بدعنوانی کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کریں۔
عدالت کا یہ فیصلہ انصاف،دیانت داری اور جمہوریت کی فتح ہے۔ یہ ان تمام اہل بے روزگاروں کیلئے امید کی کرن ہے جو اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر نوکری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی بنگال میں ایک نیا سورج طلوع ہو چکا ہے،جس کی روشنی کرپشن کے اندھیروں کو مٹا کر رہے گی۔