علیزے نجف
چین نے سنکیانگ صوبے کے شمال مغربی حصے میں ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں زبردستی قید کئے ہوئے ہے چین ان کے اوپر مظالم کی انتہا کئے ہوئے ہے۔ تشدد جبری مشقت اور جنسی استحصال کے ذریعے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہے۔ چین ان الزامات سے برابر انکاری ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جبری پر تشدد کیمپ نہیں ہیں بلکہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے ‘تعلیم نو’ کے طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کو لایا گیا جو مذہبی شدت پسندی کی شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ چین جھوٹ بول کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ ایغور مسلمان دراصل نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔
لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے ہان نسل ایغوروں کی مزاحمت پر ان پہ مسلسل تشدد کئے جا رہی ہے۔
سنکیانگ چین کے انتہائی مغرب میں واقع بڑا صوبہ ہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تبت کی طرح یہ ایک خودمختار (کم سے کم اصولی طور پر) علاقہ ہے اور بیجنگ سے علیحدہ اس کی اپنی حکومت ہے۔ لیکن عملی طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے اس پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ایغور کی آبادی اس علاقے کی مجموعی دو کروڑ 60 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف ہے۔
اس کی سرحدیں بہت سے ممالک سے ملتی ہیں جن میں انڈیا، افغانستان،پاکستان اور منگولیا شامل ہیں۔
سنکیانگ کا یہ صوبہ سخت نگرانی میں ہے وہاں کسی باہری باشندوں کا پہنچنا اور ایغور مسلمانوں کا وہاں سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔ اتنی سخت نگرانی کے باوجود بھی کچھ قیدی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جو چینی قیدی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کے پروگرام سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔
ایک شخص عمر نے بتایا:’وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، وہ ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جبکہ تاروں کو موڑ کر انھوں نے کوڑے بنا رکھے تھے، جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر کبھی بھی استعمال کیا جاتا۔ ہم دوسرے لوگوں کی چیخیں بھی سنتے۔’
چین کی مرکزی حکومت نے ایغور مسلمانوں سے متعلق خبروں کو عالمی سطح پہ پھیلنے سے روکنے کے لیے سنکیانگ صوبے پہ میڈیا والوں کے داخلے پہ پابندی لگا رکھی ہے۔ چین کی حد درجہ پابندیوں کے باوجود بھی ایغور مسلمانوں پہ کئے جانے والے مظالم کی خبریں کسی نہ کسی طرح لوگوں کے سامنے آ رہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ وہ ایغور مسلمان ہیں جو چین سے باہر دوسرے ملکوں میں قیام پزیر ہیں اور اس کے علاوہ میڈیا کے کچھ گروپوں نے اس علاقے کا دورہ کر کے ایغور مسلمانوں پہ کئے جانے والے ظلم و زیادتی کی کوریج کی کوشش کی اگرچہ چینی حکام نے مستقل ان کے پیچھے لگ کر ان کو باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی بی بی سی کی ایک ٹیم نے بتایا کہ جب ہم نے وہاں کا دورہ کر کے رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی تو سنکیانگ میں 72 گھنٹوں سے بھی کم دورانیے میں، ہمارا مستقل تعاقب کیا گیا اور پانچ علیحدہ مواقع پر لوگوں نے ہمیں روکا۔ انھوں نے کئی بار ہم پر تشدد کرکے فلمبندی سے روکنے کی کوشش کی۔
پھر بعد میں چینی میڈیانے ان کی رپورٹ کو جعلی رپورٹ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ عوام اور دنیا اصل حقیقت سے بے خبر رہیں۔
چین کی پروپیگنڈہ کی کوششیں اس بات کا اشارہ ہوسکتی ہیں کہ اسے یقین ہے کہ سنکیانگ کی کوریج اس کی بین الاقوامی ساکھ کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ اگر واقعی ان کیمپوں میں تعلیم نو کا انتظام کیا گیا ہے تو چین کی حکومت میڈیا کی کوریج سے خوفزدہ کیوں ہے؟
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر سے بدھ کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں رہنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو 2017 سے 2019 کے درمیان نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا بلکہ ان کے ساتھ جبری ظلم و ستم کا رویہ اپنانے کے ساتھ ساتھ ان کو بیجا قید و بند کی صعوبتیں بھی دی گئیں۔
ایغور عورتوں کی جبراً نس بندی کرائی جاتی ہے تاکہ ان کی نسلوں کو مٹایا جا سکے اور ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعات کی خبریں بھی ملتی ہیں۔ بچوں کو ان کے والدین سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی تاریخ سے دور ہو جائیں اور نئے رجحانات و خیالات کو بآسانی قبول کر لیں۔ ان سے باقاعدہ چینی حکومت کے لئے بیعت لینے کی زبردستی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے حواس مختل ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ صریح ظلم ہے۔
انسانی حقوق تنظیم کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ کے کیمپوں میں تقریبا دس لاکھ مسلمانوں کو جبراً حراست میں رکھا ہے جس کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال کافی سنگین ہوتی جا رہی ہے عالمی طاقتوں کو اس پر ایکشن لینے کی اشد ضرورت ہے۔
یورپی یونین نے آخری بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین پر 1989 میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ پابندیاں تیانمین اسکوائر پر ہونے والی کریک ڈاؤن کی بعد لگائی گئی تھیں جس میں جمہوریت کے حامی مظاہرین پر چینی سکیورٹی فورسز نے گولیاں چلائی تھیں۔
حالیہ دنوں میں جاری کیے گئے 48 صفحے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایغور اقلیت کو جھوٹے اور بے بنیاد جرائم کا الزام لگا کر ڈیٹنسن سینٹروں میں ڈالا جا رہا ہے جہاں ان کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ بی بی سی نے اس تعلق سے ڑن جیانگ کے ایک ڈیٹنسن کی سیٹلائٹ سے لی گئی کچھ تصویروں کو بھی شیئر کیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ اس سینٹرز کی توسیع بھی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اپنی حرکتوں پہ بضد ہے۔ کچھ سال پہلے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے کہا، “مجھے افسوس ہے کہ سنکیانگ کے ایغور خود مختار علاقے تک بامعنی رسائی حاصل کرنے کی ہماری کوششوں میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔”
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے افتتاح کے موقع پر، بیچلیٹ نے کہا کہ ان کا دفتر انسانی حقوق کے الزامات کے بارے میں دستیاب معلومات کا جائزہ لینے اور اسے عام کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
بدھ کے روز عالمی ادارے کی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کی جانب سے جاری اس رپورٹ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ حکومتوں خصوصا انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری کو اس معاملے میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چین کی جانب سے ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے تاہم کسی بھی ملک نے ابھی تک سوائے مذمت اور تنقیدی بیان جاری کرنے کے کوئی بھی کارروائی نہیں کی ہے۔ اب جب کہ چین کی تردید کے باوجود ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو عالمی طاقتوں خصوصاً مسلم ممالک کو اس پر سخت رخ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ چین اپنی ان حرکتوں سے باز آ سکے یہ اتنا آسان بھی نہیں لیکن صحیح رخ پہ کی جانی والی مسلسل جدو جہد ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے عوام کو بھی چاہئے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر کسی تک ان کی فریاد کو پہنچائیں تاکہ ان کی رہائی کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی جا سکے یہ رویہ صرف اس لئے غلط نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں بلکہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ اس لئے مذہب اور فرقے کی سوچ سے بالاتر ہو کر ان کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
[email protected]
ایغورمسلمانوں کی بے بسی ایک المیہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS