مغربی ایشیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ 1967میں جن علاقوں پر اسرائیل نے عربوں کی زمین کی پر قبضہ کیا تھا ان میں ایک اہم علاقہ میں جولان کی پہاڑیاں کئی اعتبار سے وسائل کے ساتھ ساتھ مسائل سے بھی بھرا ہوا ہے۔ وہ ہے جولان کی پہاڑیاں۔ یہ پہاڑیاں سرسبز شاداب علاقہ ہے ۔ جنگی اعتبار سے اہم ہیں ، اونچائی پر ہونے کی وجہ سے کسی بھی فوج کے لیے بالادستی قابض ہونا میدان جنگ میں اس کو دیتا ہے۔ اس وقت1967 میں مغربی اقوام کے ساتھ مل کر اسرائیل نے شام کے اس خوبصورت علاقے کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور بعد میں تمام تر بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے قرار دادوں اور عدالتی احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل نے اس خوبصورت علاقے کو اپنی مملکت کا حصہ بنا لیا تھا اور اب وہ اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ اس علاقے میںاس کے قومی اڈے قائم ہیں۔ پانی سے مالامال اس ہریالی علاقے کے وسائل کو اپنے ریگستانی علاقوں کو زراعت کے لائق بنانے کے لیے استعمال کررہا ہے مگر اس جنگ میں اسرائیل جس طرح اپنی بالادستی کو بروئے کارلاتے ہوئے قرب وجوار کے علاقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
جولان کی پہاڑیوں سے وہ لبنان کے علاقوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے۔ مگر گزشتہ دو روز قبل حزب اللہ نے ڈرون سے فوٹیج حاصل کی ہیں اور اسرائیل کو باور کرادیا ہے کہ وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہ رہے۔ حزب اللہ کی نظر اسرائیل کی اصلی مملکت کے علاوہ اس علاقے پر بھی جو اس نے شام سے چھینے تھے۔ یعنی جولان پہاڑیوں پر بھی ہے ۔ یہ اپنے آپ میں نفسیاتی جنگ کا حربہ ہے اور اسرائیل کو اندیشوں میں ڈالنے صدمات سے دوچا ر کرنے کی ایک سعی ہے۔ 2006سے ہی حزب اللہ اور اسرائیل میں اگرچہ کوئی براہ راست جنگ نہیں ہوئی ہے مگر دونوں فریق ایک دوسرے کو کمزور ثابت کرنے اور اپنی بالا دستی کا اظہار کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جو اس پوری خطے کو بوائلنگ پوائنٹ بنائے ہوئے ہیں۔ لبنان جو کہ مغربی ایشیا کا ایک اہم خانہ جنگی کا شکار اور حساس ملک ہے اور اسرائیل کے ساتھ ایران ، فلسطین اور عربوں کے رشتوں میں لبنان کی سیاسی صورت حال کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ مسئلہ فلسطین کا جب بھی ذکر آتا ہے تو شام کے ساتھ ساتھ لبنان کے صورت حال بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کو اس خطے ممالک کی اندرونی حالات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ 1981-82میں صابرہ شطیلا کیمپوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو جس بربریت کے ساتھ اسرائیلی اور لبنان میں اس کے ہمنوا اور حلیفوں نے موت کے گھاٹ اتار اتھا اتنی طویل تاریخ گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک یہ سانحات حساس طبقات اور ماہرین ومبصرین کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ 1970اور 1980میں لبنان میں خانہ جنگی کا جب بھی مطالعہ کیا جائے گا اس میں فلسطینیوں کی جدوجہد اور فلسطینوں کی حامی اور مخالف گروپوں کے درمیان قتل عام کا تذکرہ بھی ہوگا۔ یہی وہ عنوانات ہیں جو لبنان کی بدترین خانہ جنگی سے عبارت ہیں اور آج جس طریقے سے اسرائیل پورے خطے کو آگ میں جھونک رہا ہے اس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ 50سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے طور طریقوں اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس کے مقاصد وہی توسیع پسندانہ اور جنگی حکمت عملی جارحانہ ہے۔ وہ اپنے ناپاک ارادوں پر عمل آوری کے لیے ہر قانونی اور غیر قانونی طریقہ اپناتا ہے۔ وہ ہتھیاروں کی زبان سمجھتا ہے اور اسی کو اپناتا ہے۔ آج لبنان میں وہی صورت حال دہرائی جارہی ہے۔ اسرائیل کی فوجیوں نے جنو ب مشرقی لبنان میں حزب اللہ کے ایک دفاعی نظام کو نقصان پہنچایا اور ایک سینئر فوجی ماہر یاسر نمر قرنابش کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ یاسر نمر ایک دور اندیش فوجی ماہر تھے اور حزب اللہ کے کمانڈر جس نصراللہ کے باڈی گارڈ تھے۔ مگر اب ان ماہرانہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے دیگر اہم اور حساس فوجی خدمات حاصل کی جا رہی تھیں۔ جنرل نمر ہتھیاروں کی منتقل میں اہم رول ادا کررہے تھے اور 7اکتوبر کے بعد سے وہ بہت سرگرم تھے۔
خیال رہے کہ یہ کارروائی ان معنوں میں کافی اہمیت کے حامل ہے کہ اب تک جنوبی لبنان ہی اسرائیل کی کارروائیوں کا مرکز تھا اب اسرائیل نے جنوب مشرقی علاقو ںمیں کارروائی کرنی شروع کردی ہیں اور ایک ایسے درمیانہ درجے کے فوجی یاسرنمر کو ہلاک کرمیں کامیابی حاصل کی ہے جو کہ ہتھیاروں کے منتقلی اور سپلائی کی دیکھ ریکھ کرتا تھا۔
ظاہر ہے کہ خزب اللہ اسرائیل کی تخریبی کاررائیوں کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ حزب اللہ لگاتار کئی دہائیوں سے اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور لگاتار نہ صرف لبنان میں بلکہ قرب وجوار کے ان تمام علاقوں میں صہیونی طاقت سے مقابلہ کررہا ہے ۔ یمن، عراق، غزہ، شام میں حزب اللہ کی حمایت یافتہ فوجی اور خفیہ اطلاعات فراہم کرانے والی ایجنسیاں انہتائی سرگرمی سے کام کررہی ہیں اور اسرائیل کو اندازہ ہے کہ جس طرح 2006میں لبنان سے اسرائیل کو انخلاکے لیے مجبور کیا تھا وہ طاقت کوئی اور نہیں وہ حزب اللہ تھی۔ جیسا کہ قارئین کو باور کرایا گیا ہے کہ 2006میں وادیٔ شیبا سے ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے اسرائیل کو بوریا بستر سمیٹ کر بھاگنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ مگر آج ایک بار پھر اسرائیل اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے قرب وجوار کے عرب اور مسلم ممالک کے علاقوں پر کارروائی کررہا ہے اور اس کو جو کچھ بھی مزاحمت مل رہی ہے وہ حزب اللہ اور اس کی تعاون سے سرگرم ہونے والے جنگی گروپوں سے ہی مل رہی ہے۔ غزہ میں اسرائیل غیر معمولی تباہی مچا کر اپنے مشن کو تقریباً مکمل کرچکا ہے وہ فلسطینیوں کی ایک بڑی نسل کو لقمہ اجل بنا چکا ہے۔ اس نے اپنی دانست میں غزہ کے فلسطینیوں ارباب اقتدار اور نظام حکومت کی کمر توڑ دی ہے۔ غزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اس نے مغربی ایشیا کے ان علاقوں اور ملکوں کی طرف توجہ دینی شروع کی ہے جو اس کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں لبنان ، شام اور یمن کے علاوہ بحر احمر اور بحر اسود کے سمندر میں سرگرم طاقتیں بھی شامل ہیں۔ اب لبنان کی طرف اس کی پوری توجہ ہے جبکہ یوروپی ممالک بطو ر خاص فرانس اور امریکہ کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کوئی جنگ نہ چھڑے کیونکہ اس کا نتیجہ وہ نہیں ہوگا جو کہ غزہ اور مغربی کنارہ میں نظرآرہاہے۔ لبنان یا شام میں کوئی بھی کارروائی اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
شام کی پہاڑیوں تک پہنچ رہی ہے لبنان کی تپش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS