عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت وزیراعظم نریندر مودی نے پورے ودھی ودھان(ہندو مذہبی رسم و رواج) کے ساتھ عوام کو سونپ دی، اس کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا کہ اب ہندوستان واقعی میں ہندو راشٹر بن گیا ہے کیونکہ ہندو مذہبی تعلیمات کے مطابق پوجا پاٹھ میں نہ کوئی عورت شریک ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی نچلی ذات کا شخص، اسی لیے صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کو اس تقریب سے دور رکھا گیا کیونکہ وہ نچلی ذات کی آدی واسی ہیں اور عورت بھی ہیں ۔
شرما شرمی سورہ رحمن کی تلاوت بھی کرائی گئی اور بائبل بھی پڑھی گئی مگر پوری تقریب میں دال میں نمک سے بھی کم حیثیت والی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی جی کا کوئی قدم خالی از علت نہیں ہوتا، ان کے پاس صرف ایک نکاتی پروگرام ہوتا ہے اور وہ ہے الیکشن جیتنا اور چونکہ ان کی حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ مانگیں، اس لیے ہندوؤں کے مذہبی جذبات بھڑکا کراور ان کی ذہن شوئی کر کے ان کے ووٹ حاصل کرنا ہی ان کے پاس واحد راستہ ہے -نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا اس طرح گھور ہندو دیو مالائی انداز میں افتتاح اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، یہی نہیں ابھی جنوری میں ایودھیا میں رام مندر بھی بن کر تیار ہو جائے گا، اس کا افتتاح بھی اسی انداز میں ہوگا اور اس کی تشہیر بھی اسی انداز اور اسی مقصد کو سامنے رکھ کر کی جائے گی۔جب جی-20کے اجلاس کا انعقاد الیکشن سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہے تو سوچا جا سکتا ہے کہ کس حد تک مودی جی موقع شناس ہیں۔ سبھی جانتے کہ جی-20 کے اجلاس کی2022میں ہندوستان کو میزبانی کرنی تھی اور2023میں انڈونیشیا کا نمبر تھا مگر2024کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بھنانے کے لیے انڈونیشیا سے اد لا بدلی کرلی گئی۔
ہندوستان کا موجودہ دستور سیکولر ہے جس کے مطابق حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا،کسی بھی سرکاری تقریب میں کسی مذہب کی رسم ادا کرنا غیر آئینی، غیر دستوری ہے لیکن جو عمارت آئین ہند کی سب سے بڑی علامت ہو، اس کی تعمیر اور افتتاح یعنی تعمیر کے آغاز پر بھومی پوجن اور پھر تعمیر کے بعد افتتاح سب ہندو رسم و رواج سے کیا گیا اور آئین ہند کنارے کھڑا اپنی بیچارگی پر آنسو بہا رہا ہے۔یہی نہیں اس عمارت کی تعمیر کے ساتھ یہ اشارہ بھی دے دیا گیا ہے کہ اب ہندوستان جمہوریت کے بجائے ملوکیت یا شہنشاہی نظام کی جانب بڑھ رہا ہے۔جنوبی ہند کے چولا راجاؤں میں جب اقتدار کی منتقلی ہوتی تھی تو انہیں ایک علامتی عصا پنڈتوں کے ہاتھوں سے دیا جاتا تھا جو اقتدار کی منتقلی کی علامت تھا، اس کو سنگول کہا جاتا تھا، اب یہ سنگول ہندوستان کے جمہوری نظام میں شامل کر لیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اس کو اسپیکر کی میز کے بغل میں نصب کر دیا جائے گا۔یہ کیا اشارہ ہے۔ سرکار پرستوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آزادی کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ سنگول پنڈت جواہر لعل نہرو کو اقتدار کی منتقلی کے علامت کے طور پر دیا تھا جسے انہوں نے میوزیم میں رکھوا دیا تھا۔جبکہ موقر اور معتبر اخبار ’ہندو‘ نے اس کی نفی کی ہے۔ دوسرے نہرو جمہوریت پسند، جمہوریت نواز تھے، وہ ہندوستان کو ایک مضبوط سیکولر جمہوریہ بنانا چاہتے تھے، ظاہر ہے ملوکیت کی کسی علامت کو نہرو کی جمہوریت میں جگہ نہیں مل سکتی تھی مگر آر ایس ایس تو شروع سے ہی جمہوریت کی سخت مخالفت تھی، وہ ایک ہندو شاہی نظام چاہتی تھی جو کسی آئین کے تحت نہ ہو بلکہ جو کچھ منو اسمرتی میں کہا گیا ہے، اسی کے حساب سے راج کاج چلے اور منو اسمرتی میں کیا کیا کہا گیا ہے، یہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔ جمہوریت اسی تفریق کو ختم کرنا چاہتی ہے جو تفریق منو اسمرتی کے ذریعہ آر ایس ایس جاری رکھنا چاہتی ہے اور اپنے وجود کے سو سال بعد اسے اب یہ موقع مل گیا ہے، دھیرے دھیرے کر کے وہ سب کچھ ختم کیا جا رہا ہے جو آئین میں درج ہے اور وہ سب لاگو کیا جا رہا ہے جو آر ایس ایس کا خواب ہے جس کی تفصیل گروگولوالکر نے اپنی کتابوں میں درج کر دی ہے کہ نئی عمارت کے افتتاح کو لے کر حزب اختلاف اور حکومت میں تلواریں کھنچی ہیں۔کورونا کی تباہی کے دور میں20ہزار کروڑ کے اس سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کی حزب اختلاف شروع سے ہی مخالفت کرتا رہا ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پرانی عمارت میں2026کے بعد ممبران کی جو تعداد بڑھے گی، اس کو دیکھتے ہوئے یہ عمارت چھوٹی پڑ رہی ہے لیکن یہ ایک بودی دلیل ہے کیونکہ صدر جمہوریہ کے خطبہ کو یا کسی ووٹنگ والے موقع کو چھوڑ دیا جائے تو اکثر ایوان کی نشستیں خالی ہی رہتی ہیں، اس لیے محض بڑھے ہوئے20-25ممبران کے بیٹھنے کے لیے20ہزار کروڑ روپے خرچ کر دینا کون سی عقل مندی ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پرانی عمارت90سال پرانی ہے اور نا قابل مرمت ہے، یہ بات بھی ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ ہمارے لکھنؤ میں150سال سے بھی زیادہ پرانا پل آج بھی سب سے زیادہ ٹریفک ڈھو رہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت سیکڑوں سال پرانی ہے، ممبران کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی عمارت نہیں بنوائی گئی بلکہ اسی عمارت سے کام چلتا ہے یہاں تک کہ اکثر ممبران کھڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نئی عمارت کے افتتاح میں صدر جمہوریہ کو پوچھا تک نہیں گیا۔ حزب اختلاف اس کو لے کر فطری طور سے چراغ پا ہے کیونکہ جس ہستی کے نام پر پورا جمہوری نظام چلتا ہو، اسے ہی دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا ہے۔یہ پورے جمہوری نظام کی توہین ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی نا خلف اولاد اپنے بوڑھے باپ کو گھر میں بند کر کے اپنی بارات لے کر چلی جائے۔لیکن مودی جی کے لیے یہ کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے، اسی عمارت کی تعمیر کے وقت بھومی پوجن کے موقع پر اس وقت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو نہیں بلایا گیا تھا، وار میموریل کے افتتاح میں بھی صدر جمہوریہ کو نہیں بلایا گیا تھا، حالاں کہ بہ اعتبار عہدہ وہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہوتے ہیں مگر مودی جی ان سب سیاسی اخلاقیات کے چکر میں نہیں پڑتے وہ ہم چنیں دیگر نیست کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں، اپنے فوٹو کے فریم میں وہ کسی اور کا فوٹو برداشت نہیں کر سکتے۔
جمہوریت صرف الیکشن لڑنے سے جیتنے کا ہی نام نہیں ہے، الیکشن میں ایک سے ووٹ زیادہ پا کر جیت جانے والا مالک کل نہیں ہوتا، جمہوریت اختلاف میں اتفاق بنا کر چلنے کا نام ہے۔ کامیاب پارٹی اور کامیاب لیڈر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہارنے والے کو احساس شکست نہ ہونے دے، بلکہ اس کو ساتھ لے کر چلے۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی پہلی کابینہ میں اپنے سیاسی مخالفین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کو شامل کرکے یہ راہ دکھلائی تھی، ان کے زمانہ میں ان کی پارٹی کے لوگ ہی اصل حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے سگے داماد فیروز گاندھی نے بھرے ایوان میں نہرو کے وزیر مالیات ٹی ٹی کرشنماچاری پر بد عنوانی کے الزام اتنے زور شور سے اٹھائے کہ نہرو کو مجبور ہو کر ان سے استعفیٰ لینا پڑا تھا۔چین کے مسئلہ پر لوک سبھا میں بحث کا جواب دیتے ہوے نہرو نے کہا تھا کہ آکسائی چن میں تو گھاس کی ایک پتی تک نہیں اگتی تو انہیں کی پارٹی کے مہابیر تیاگی نے کھڑے ہو کر اپنا گنجا سر دکھاتے ہوے کہا: پنڈت جی میرے سر پر ایک بال نہیں اگتا تو کیا میں اپنا سر کاٹ دوں۔ نہرو سمیت پورا ایوان اس بات پر اپنی ہنسی نہیں ر وک پایا تھا، یہ تھی ہماری جمہوریت جو آج اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں حکمراں جماعت کے ممبران تو کیا حزب اختلاف کے ممبران بھی زیادہ بولتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ای ڈی، سی بی آئی وغیرہ کا چھاپا پڑجائے گا۔70برسوں میں ہماری جمہوریت چٹان کی طرح مضبوط اور مستحکم ہونے کے بجائے ریت کی طرح بھربھری ہو گئی ہے تبھی تو عالمی رینکنگ میں ہمیں جزوی جمہوریت کے خانہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے لیکن ’’کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘‘ والی حالت دکھائی پڑ رہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]