تبدیلی مذہب کا ’ہَوّا‘

0

تبدیلی مذہب کا معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔خاص کر شمال مشرقی ریاستوں، قبائلی علاقوں اور جنوبی ریاستوںمیں ہونے والی مذہب کی تبدیلی پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے مجلہ ’دی آرگنائزر ‘نے دعویٰ کیا ہے کہ ای کامرس کی بڑی کمپنی امیزون (Amazon) امریکی بیپٹسٹ مشن (ABM) کے ذریعے چلائی جانے والی تبلیغی مہم کی فنڈنگ کررہی ہے اور وہ ہندوئوں کو عیسائی بنارہی ہے۔ آر ایس ایس کے اس مجلہ میں ’’دی امیزنگ کراس کنکشن‘‘ کے عنوان سے ایک کور اسٹوری میںالزام لگایاگیا ہے کہ کمپنی تبدیلی مذہب کا باقاعدہ ماڈیول چلارہی ہے اور اس میں بڑے پیمانہ پر منی لانڈرنگ بھی کی جارہی ہے۔اسی نوعیت کے کچھ الزامات مسلم تنظیموں پربھی لگائے جاچکے ہیں اوراس معاملے میں کئی ایک نامورعلمائے کرام جیل میں بند ہیں۔
ادھر دو یوم قبل سپریم کورٹ نے بھی جبراً تبدیلی مذہب کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔سپریم کورٹ، بی جے پی لیڈر اور ایڈووکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کر رہا تھا۔عرضی میں مرکز اور ریاستوں کو ’دھمکیوں، تحائف اور پیسوں کے لالچ‘ کے ذریعے دھوکہ دہی سے ہونے والی مذہب کی تبدیلی پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات نیز لا کمیشن سے 3ماہ میں دھوکہ دہی سے مذہب تبدیل کرائے جانے کے معاملے پر بل اور تبدیلی مذہب پر کنٹرول کیلئے ایک رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب بہت سنگین مسئلہ ہے ، اگر زبردستی تبدیلی کو روکا نہیں گیا تو ’ انتہائی مشکل صورتحال‘ پیدا ہو جائے گی۔ عدالت نے اسے روکنے کیلئے فوری طور پر ضروری اقدامات پر بھی زور دیتے ہوئے مرکزی حکومت کا موقف جاننے کیلئے 22نومبر تک حلف نامہ داخل کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت اب 28نومبر کو ہونی ہے۔
یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں دوبارہ ابال پر آیا ہے جب گجرات میں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں۔ویسے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کا یہ ایک پسندیدہ ایشو ہے اور مختلف پلیٹ فارم کے ذریعہ اسے وقتاً فوقتاًمنظر عام پر لایا جاتا ہے اور جب جیسی ضرورت ہوتی ہے، اس کا استعمال کیاجاتا ہے۔
جہاں تک تبدیلی مذہب کی بات ہے ہندوستان کے آئین میں اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی آئین کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب تبدیل کرنا قانونی ہے اور کوئی بھی بغیر کسی پابندی کے اپنے مذہب پرنہ صرف عمل کرسکتاہے بلکہ اس کی تشہر و تبلیغ کیلئے بھی آزاد ہے۔
لیکن جبری تبدیلی مذہب کی نہ تو کوئی آئین اجازت دیتا ہے اور نہ کسی مذہب میں ہی اس کی کوئی گنجائش ہے۔ جبری تبدیلی مذہب تواسلام کی روح اور اس کے مزاج کے ہی خلاف ہے۔مسلمان اس ملک پر صدیوں تک حکمراں رہے لیکن اس دور میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور نہ جبری تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ ہی سامنے آیا، اسی طرح انگریزوں کے تقریباً300سالہ دور حکمرانی میں بھی جبری تبدیلی مذہب کاکوئی خاص واقعہ سامنے نہیں آیا۔آزادی کے بعد عیسائی مشنریوں پر البتہ یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ مختلف طرح کی سہولیات کی لالچ دے کر ہندوئوں کو عیسائی بنارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آبادی کا توازن بگڑ رہاہے۔حالیہ برسوں میں تو گویا ان الزامات کو پر بھی لگ گئے ہیں اوراس کے دائرہ میں مسلم تنظیمیں بھی شامل کرلی گئی ہیں۔ کئی ریاستوں میں اس کے خلاف قانون بھی بنائے گئے ہیں اور جبری تبدیلی مذہب ہی نہیں بلکہ رضاکارانہ تبدیلی کو بھی ’ ملک دشمنی‘ ٹھہرایا جارہا ہے۔ہندو شدت پسند گروہوں کا کہنا ہے کہ عیسائیت یا اسلام قبول کرنے سے ملک کی ہندو اکثریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے عیسائی مشنریوں پر حملہ، مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کا بائیکاٹ جیسی مہمیں چلائی جارہی ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کی شرح فقط2فیصدسالانہ ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر (PEW Research Center)کے ایک حالیہ سروے میںیہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کی وجہ سے کسی مذہبی طبقہ کی آبادی میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ سینٹر نے اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جتنے لوگ ہندو مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اپناتے ہیں،اتنے ہی لوگوں نے تبدیلی مذہب کے بعد ہندو مذہب کو گلے لگایا ہے۔اعدادوشمار سے مزین یہ حقائق ہر طرح کی الزام تراشی کو رد کرنے کیلئے کافی ہیں لیکن ملک کی موجودہ سیاست تبدیلی مذہب (یا جبری تبدیلی مذہب) کوہوّا بنا کر پیش کررہی ہے۔سیاست کی یہ کوشش ہوسکتا ہے وقتی انتخابی جیت کا سبب بن جائے لیکن اس سے مذہبی منافرت میں شدت ہی آئے گی اور اس کا نتیجہ پورے ملک کو بھگتنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS