مفتی اصغر علی القاسمی
اسلام کاحکم ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کروخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔مظلوم کی مدد کرنا تو سب کو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر ظالم کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے، عوام کو اس کا مطلب معلوم نہیں ۔ اس لئے اس حدیث شریف کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھیں۔
حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی انسان پر ظلم ہورہا ہو، اسے مارا پیٹا جارہا ہو، اس کے حقوق کو دبایاجارہا ہو ،اس کی عزت کو تار تار کیا جارہا ہو ، تو اس (مظلوم ) کی مددکرو، اور اسے بچانے کی اور اس کے حقوق کی بازیابی کی حتی المقدور سعی و کوشش کرو۔ یہ مظلوم کی مدد کرنا ہے ۔ اور ظالم کی مدد کرنایہ ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیاجائے ، اس کے ہاتھ سے لکڑی ، ڈنڈا، تلوار ، پستول و دیگر ہتھیار کواس کے ہا تھ سے چھین لیاجائے ۔ غرض یہ کہ ظالم کو ظلم سے روک دینے کا ہی دوسرانام ظالم کی مدد کرنا ہے۔
اس تشریح سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایک انسان کے اندر حمایت اور مخالفت بالفاظ دیگر ’’ امرباالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘ دونوں طرح کے اوصاف ہونے چاہئے۔ تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم کی حما یت کرسکے اور دشمن کی مخالفت بھی۔ اگر کسی مسلمان میں یہ وصف مفقود ہوجائے اور اس کی ایمانی حرارت سرد پڑجائے تو میراخیال ہے کہ اس کے اور مردہ میںکوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ مردہ ، قبر میں اپنی ذات سے کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان۔ اسی طرح یہ بے حس انسان زمین پر چلتا پھرتا زندہ لاش ہے جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ جبکہ ایک مومن کامل کی شان یہ کہ وہ کسی جرم(منکر) کو ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش نہ رہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اگر کسی مقام پر کوئی برائی عام ہورہی ہو اور استطاعت ہو تو اس برائی کو روکنے کی کوشش کرے ،اور ظلم کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کرے۔ استطاعت کے باوجود ایک مسلمان اس منکر پر نکیر نہ کرے ، اور ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش تماشائی بنا رہے، تو یہ اس کے ایمان کے منافی ہے ۔
آقائے مدنی جناب محمد رسو ل اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی کسی بری بات کو دیکھے اور ہاتھ سے اسے روک دینے کی طاقت ہو تو اسے روک دے ۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی قدرت ہو نہ ہو تو زبان سے روک دے ،اگر زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہ ہو تو اس کو دل میں برا سمجھے ،اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان کا ’’صلح کل‘‘ بن جانا یعنی نہ وہ کسی کے سامنے حق بات کہے اور نہ کسی کو بری بات سے روکے، تو یہ مزاج شریعت کے اور منشاء نبوت کے خلاف ہے۔ اور یہ اس شخص کے حق میں علی الا طلا ق و صف حسن قرار نہیں دیاجاسکتا۔
اس زمانہ میں یہ بات بڑی خوبی کی سمجھی جاتی ہے کہ آدمی بالکل خاموش رہے، نہ کسی سے کوئی واسطہ رکھے نہ ہی کسی کی خیریت پوچھے بلکہ پڑوس میں جنازہ ہو جائے تو جناب والا کو پتہ ہی نہ چلے۔ اور ستم ظریفی یہ کہ اہل زمانہ ایسے لاپراہ شخص کو’’ صوفی‘‘ کانام دے دیتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ فلاں حضرت بہت بڑے متقی اور بڑے اللہ والے ہیں ،ان کے گھر میں جنازہ ہوگیا اور ان کو معلوم بھی نہ ہوا ۔اور فلاں شخص بڑا سیدھا سادہ اور سنجیدہ تھا ،اس نے کبھی کسی کو اپنے قول وعمل سے تکلیف نہیں پہنچائی۔ مگریاد رکھیں کہ یہ بات دنیوی اعتبار سے کسی کے لئے درست ہو سکتی ہے ۔ مگر دینی اعتبار سے ہرگز درست نہیں۔ حضرت اوس بن شرحبیل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؛آپ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کے لئے اور اس کا ساتھ دینے کے لئے چلا اور اس کو اس بات کا علم تھا کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا ۔
اس حدیث شریف کو بغور پڑھیں اور محاسبہ کریں کہ ہمارے ساتھ کبھی ایسا معاملہ تو نہیں ہوا کہ ہم نے کسی کو ناحق جانتے ہوئے بھی اس کا ساتھ دے دیاہو ؟بعض مسلمانوں کی زندگی میں ایک بار نہیں کئی بار ایسے معاملے ہوئے ہیں کہ انہوںنے جھوٹی گواہی دے کر نہ جانے کتنے بھولے بھالے انسانوں کو مقدمات کے جال میں پھنسایا ہے اور جیلوں کی کوٹھریوں میں سڑایاہے۔
’’ظلم ‘‘عام ہے خواہ کسی بھی طرح کاہو ، اور کسی پر بھی ہو ، اپنے اوپر کیاجائے یاکسی دوسرے پر مثلاً کوئی شخص، احکام شرعیہ کی پیروی نہیں کرتا ، یعنی اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے ، تو یہ بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔یاد رکھیں کہ گناہ کرنا اپنے نفس پر ظلم کرنا کہلاتاہے ۔
قرآن پاک میں ہے ۔(ترجمہ) اے ہمارے پروردگار !ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں۔(اعراف)
اسی طرح یاتوظلم کسی دوسرے پر کیاجائے ، مثلاً زبان سے کسی کوگالی دینا ، کسی کو مارنا ،کسی کامال دبالینا ، کسی کا قرضہ واپس نہ کرنا ، حتیٰ کہ کسی کو لعن وطعن کرنا یہ تمام امور ظلم میں داخل ہیں۔