عالمی بحران اور چین-امریکہ تعلقات

0

صبیح احمد

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اوباما دور میں اس بارے میں سنجیدہ بات چیت ہوئی تھی کہ آیا ’G-2‘ ابھر سکتا ہے، یعنی امریکہ اور چین دنیا کے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے، آسانی سے نہیں،لیکن خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی سے ایک ساتھ آ سکتے ہیں۔ دونو ں ملکوں کی باہمی رقابت یا دشمنی کی قیمت پہلے کے مقابلے ابھی زیادہ اور واضح ہے: عالمی اقتصادی کساد بازاری کا خطرہ، موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں ناکامی اور یہاں تک کہ مستقبل قریب میں فوجی تصادم۔ دو طرفہ تعلقات میں مضبوطی تو دور کی بات، فی الحال جس طرح کے بھی تعلقات ہیں، انہیں بچانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات برسوں سے نہ صرف اپنی انتہائی نچلی سطح پر ہیں بلکہ مسلسل پستی کی جانب گامزن ہیں۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ خاص طور پر بیجنگ کی جانب سے حالات کو بہتر کرنے کی کوششیں ترک کر دی گئی ہیں۔ ماسکو کے لیے اس کی حمایت نے حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یوکرین میں جنگ کیسے اور کب ختم ہوتی ہے، یہ امریکہ اور چین کے تعلقات کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
چین-امریکہ تعلقات میں دراڑیں حالیہ دنوں مزید وسیع ہو گئی ہیں، خاص طور پر غبارہ جاسوسی معاملہ نے آگ میں گھی کا کام کیا ہے۔ امریکہ چین کی شناخت ایک اسٹرٹیجک حریف کے طور پر کر رہا ہے اور چین امریکہ کو ایک مسلط طاقت کے طور پر دیکھ رہا ہے جو ’رکاوٹیں‘ پیدا کر رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ صدر جو بائیڈن اور صدر ژی جن پنگ گزشتہ دنوں اوباما انتظامیہ کے کئی سال بعد ایک دوسرے سے ملے تھے، توقع تھی کہ امریکی انتخابات کے بعد تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن اس حوالے سے انتہائی محدود پیش رفت ہوئی۔ صدر بائیڈن اور صدر ژی کے درمیان گزشتہ ورچوئل بات چیت صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صرف دوسری بار ہے۔ مواصلات کا فقدان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو ظاہر کرتا ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے عالمی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے تدبیریں کرنا چاہتے ہیں، جبکہ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ انہیں باہمی دلچسپی کے امور جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض پر قابو پانے اور اقتصادی بحالی پر تعاون کرنا چاہیے۔ حالانکہ مذکورہ بات چیت کا نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن انہیں مواصلات کو دوبارہ قائم کرنے کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت ایسے وقت میں ہوئی جب تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، ہند بحرالکاہل کے مسائل پر کشیدگی بڑھ رہی تھی اور یہ بات چیت افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے چند ماہ بعد ہو رہی تھی۔
دراصل امریکہ اور چین کے درمیان دشمنی بین الاقوامی تعلقات کا ایک نمونہ بن چکی ہے اور اسٹرٹیجک گفتگو کو شکل دیتی ہے اور سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔ مثلاً موسمیاتی تبدیلی پر امریکہ اور چین کے تعاون نے بڑی حد تک عالمی کارروائی کی سمت طے کرنے میں مدد کی ہے۔ دونوں ممالک نے پیرس معاہدے سے ایک سال قبل 2014 میں اس حوالے سے کارروائی کرنے کا عہد کیا تھا۔ اس کے بعد دیگر اقوام نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے عزائم کو جاری رکھتے ہوئے اس نقطہ نظر کی پیروی کی ہے۔ 2014 میں صدر براک اوباما اور صدر ژی جن پنگ کی طرف سے دو طرفہ موسمیاتی اعلان ایک اہم علامتی اشارہ تھا کہ دنیا کے 2 سب سے بڑے کاربن آلودگی والے ممالک ایک نئے معاہدہ کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حالانکہ یہ اعلان اس حوالے سے ٹھوس یا واضح نہیں ہے کہ مذکورہ منصوبے کیسے حاصل کیے جائیں گے، بہرحال یہ اعلان ایک ایسے وقت میں دونوں ممالک کی مشترکہ قیادت کی امید پیش کرتا ہے جب اقتصادی اور سلامتی کے امور پر بات چیت کو دھچکا لگا ہے۔ بہرحال امریکہ اور چین کو موسمیاتی، سیاسی اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کو امریکہ ’اسٹرٹیجک مقابلے‘ میں سے ایک کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب چین نے مزید کھلے پن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا ہے اور اقوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے اپنے دروازے بند نہ کریں۔ اختلافات کے باوجود، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات اہم ہیں، یہاں تک کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے خطرات کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ کووڈ19- وبائی بیماری نے بین الاقوامی معیشتوں کو زبردست دھچکا لگایا ہے۔ امریکہ اور چین دونوں نے اپنی اقتصادی سپلائی چین کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں جن میں قومی سلامتی کے اثرات ہیں جیسا کہ حساس ٹیکنالوجیز، آرٹیفیشل انٹلیجنس اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز وغیرہ۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر پابندیاں بھی لگائی ہیں، خاص طور پر چین کے کچھ حصوں میں مینوفیکچرنگ یونٹس کے حوالے سے۔ اس کے باوجود امریکہ اور چین کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات مضبوط رہے ہیں۔ چونکہ اب بائیڈن کی صدارت میں تعلقات میں مسلسل کمی آرہی ہے، اس لیے امریکہ اور چین میں رسہ کشی کے عالمی اثرات کے بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جارہی ہے۔
وبائی امراض کے بعد کی بحالی صرف معاشی بحالی تک محدود نہیں ہے۔ اس میں ویکسین کی تقسیم اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر تعاون بھی شامل ہے۔ یہ وائرس سب سے پہلے چین میں پایا گیا تھا اور امریکہ سب سے زیادہ انفیکشن اور اموات کی شرح کا شکار ہوا ہے۔ چونکہ وبائی بیماری اپنے تیسرے سال میں ہے اور دنیا بھر میں نئی شکلیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں، اس لیے وبائی مرض کو قابو میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ عالمی تعاون کے ذریعہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کی فعال شرکت انتہائی ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں ہونے والے وبائی امراض کو روکنے کے لیے وائرس کو سمجھنے اور دیگر عالمی صحت کے بحرانوں جیسے کہ HIV/AIDS، SARS، Ebola اور مختلف قسم کے انفلوئنزا سے نمٹنے کے لیے بھی تعاون درکار ہے۔ کووڈ19- نہ تو آخری وبائی بیماری ہے اور نہ ہی آخری عالمی بحران۔ امریکہ اور چین اس موقع کو دوسرے چیلنجوں سے نمٹنے کی غرض سے اعتماد اور صلاحیت پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان شعبوں میں جہاں امریکہ اور چین کے باہمی مفادات ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ اثر کے لیے تعاون کر سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS