ڈاکٹر سیّد احمد قادری
وکست بھارت 2047 کا تصور یا نعرہ ٹھیک اسی طرح بے معنی ہے جس طرح اس نعرہ سے قبل امرت بھارت ، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ،سب کا وشواس، ہر سال دو کروڑ بے روزگاروں کو نوکری، اسمارٹ سٹی ، ملک کے ہر شخص کے کھاتے میں15 لاکھ روپے وغیرہ جیسے کھوکھلے نعرے ملک کے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے دئے گئے تھے ۔ یہ نعرے اسی وقت ممکن ہوتے اگر یہ نعرے مثبت معنویت کے ساتھ سامنے آتے اور بھارت ترقی(وکاس ) کی جانب گامزن ہوتا ۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سربراہ کی بے حد کمزور قیادت کے باعث پورے بھارت کی ترقی (وکاس) کی رفتار تھم سی گئی ہے ۔ یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا ہوں،بلکہ پورے ملک کے دانشوران، سائنسداں ، تاریخ داں وغیرہ کے ساتھ ساتھ غیر ممالک کے کئی تجزیہ کار مسلسل اس امر کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک کی پوری معیشت نہ صرف تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے بلکہ اس کے منفی اثرات ملک کے مختلف شعبہ حیات پر پڑرہے ہیں ۔ ملک کی تہذیبی، ثقافتی ، معاشرتی ، لسانی ، ادبی و صحافتی سفر دن بہ دن کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔ایسے نا گفتہ بہ حالات میں کسی بھی طرح کی ترقی یا وکاس کی باتیں عبث ہیں۔
ان دنوں مرکزی حکومت کا ایک اردو ادارہ این سی پی یو ایل یعنی قومی کونسل برائے فرغ اردو زبان کی جانب سے بڑے زور و شور سے مودی حکومت کے نعرہ ’اردو زبان کا مستقبل: وکست بھارت کے تناظر میں‘دیا جا رہا ہے ۔ ریاست بہار میں چند ماہ بعد اسمبلی انتخاب کے پیش نظر بہار کی اردو آبادی کو خوش کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرکے سہ روزہ سیمینار منعقد کرایا گیا، لیکن افسوس کہ اردو کونسل کے پس پردہ منشا کا اندازہ یہاں کی اردو آبادی کو بخوبی ہو گیا اس لئے بہت سارے اہل قلم نے نہ صرف اس سیمینار کا بائیکاٹ کیا بلکہ ا س کے خلاف زبردست احتجاج بھی دیکھنے کو ملا ۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے جس ریاست کی اردو اکادمی معطل ہو ، اردو مشاورتی کمیٹی کو ختم کر دیا گیا ہو، اسکولوں میں اردو زبان کی تعلیم لازمی سے اختیاری کا حکم صادر کرکے اردو کو جڑ سے ہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہو ۔وہاں اردو کے سلسلے میں مایوسیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔
اردو زبان نے بلا شبہ قومی ہم آہنگی ، یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر سکتی ہے اگر اس زبان کی منصوبہ بند طریقے سے مخالفت کی بجائے محافظت کی جائے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دس گیارہ برسوں میں بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اردو زبان کی ہر سطح پر فروغ کی کوشش کی بات تو بہت دور اس زبان کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے ۔اردو زبان کا رسم الخط چونکہ عربی اور فارسی رسم الخط کی طرح ہے اس وجہ سے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان کے بے بنیاد تصور کو فروغ دیا گیاہے ۔ اردو زبان سے حکومت کی سرپرستی دن بہ دن ختم ہونے کے نتیجہ میں پورے ملک میں اردو زبان روبہ زوال ہے ۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے ساتھ غیر بی جے پی یعنی سیکولرپارٹیوں کی حکومت میں بھی اردو زبان کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ شایدیہ اس قول پر عمل کر رہے ہیں کہ کسی قوم کو ختم کرنا ہے تو پہلے ا س کی زبان کو ختم کردو۔ ابھی چند دنوں قبل ہی فرقہ پرستی کے چمپئن وزیر اعلیٰ اتر پردیش اپنی اردو دشمنی کا اظہار قانون ساز اسمبلی میں کرتے ہوئے اردو زبان کو کٹھ ملاؤں کی زبان قرار دیا تھا ۔ ایک اعلیٰ عہدہ پر بیٹھے وزیراعلیٰ جس طرح اردو زبان کے تعلق سے مولوی، ملّاؤں کو ہدف ملامت بنا رہے ہیں ، ان ہی مولوی ملّاؤں نے آزدیٔ ہند میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔
آج جو ہر چہار جانب ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونجتے ہیں یہ بھی مولوی نما حسرت موہانی کی دین ہے ، ’سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے ‘جیسی حب الوطنی سے سرشار اشعار سنا کرا پنی افواج کو ہمّت و حوصلہ دینے والی غزل کے خالق مولوی بسمل عظیم آبادی ہی تھے ۔ جن مولویوں ، ملّاؤں کے مدارس کو آئے دن یوگی آدتیہ ناتھ اور ان جیسے لوگ نشانہ بنارہے ہیں ۔انھیں کیا معلوم کہ ان ہی مدارس سے ملک کے ہزاروں ہندو مسلمانوں نے تعلیم پا کر دنیا میں نام روشن کیا اور اپنے ملک کی شان بڑھائی ہے۔اردو زبان کی مخالفت کرنے والے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ پہلے شخص نہیں ہیں ۔ اردو زبان کو ختم کرنے کی ایک منظم اور منصوبہ بند کوششیں موجودہ حکومت میں مسلسل چل رہی ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے ، دھیرے دھیرے اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ادارے اور شعبے دم توڑ رہے ہیں۔دراصل عربی رسم الخط کی وجہ سے اردو کو صرف مسلمانو ں کی زبان ثابت کر کے اس زبان کو بھی وہی درجہ اور حیثیت دینے کی کوششیں کی جاری ہے ، جو یہاں کے مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔
ایسے لوگوں کی ایسی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اردو زبان آج پرانی لائبریریوں اور مدرسوںمیں پناہ گزیں ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب کوئی کھلم کھلّا اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ یہ زبان ہندو، مسلم ، سکھ عیسائی کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہے اور ہر صاحب علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ اردو ہی زبان ہے جس نے اپنی گود میں لے کر، دیا نرائن نگم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پریم چند، چکبست، فراق، سدرشن ، جوش ملسیانی، ترلوک چند محروم، آنند نرائن ملّا ، کرشن چندر، بیدی، رام لعل، جگن ناتھ آزاد، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، وشو ناتھ طاؤس، دیوندر اسر، دیوندرستیارتھی، کالی داس گپتا رضا، تارا چرن رستوگی، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر، بلراج ورما ، رام لال نابھوی،گوپال متّل ،رتن سنگھ، گیان چند جین ، جوگندر پال ، مالک رام ، بلونت سنگھ ، کرشن موہن ، موہن چراغی، مانک ٹالہ ، اوپندر ناتھ اشک، راج نرائن راز، شباب للت، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، کنھیا لال کپور، بلراج کومل، کمار پاشی، گربچن چندن، جمنا داس اختر، گلزار زتشی دہلوی، شرون کمار ورما ،چندر بھان خیال، ش ک نظام وغیرہ کے فکر و خیال کو آفاقیت بخشی اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا کر ان کے نام نامی کو چاند تاروں کی مانند درخشندہ کیا۔ اب کوئی بتائے کہ اردو اگر مسلمانو ں کی زبان ہے تو پھر ان لوگوں کو ذات اور مذہب کے کس خانے میں رکھا جائے گا ۔
ملک کی متعصب اور فرقہ پرست سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارتی اور آر ایس ایس کے دلوں میں اردو زبان کانٹے کی طرح زمانے سے کھٹک رہی ہے ۔ کافی عرصے سے یہ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اس یونیورسٹی کے تشخص کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں، لیکن جب سے بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے ۔ اس کے منافرت سے بھرے عزائم اور حوصلے بڑھ گئے اور وہ ہر قیمت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو سلب کرنے کرانے کے درپے رہے تاکہ یہاں کے مسلمان اور اردو داں نہ صرف تعلیمی ، بلکہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہو جائیں، اور یہ بے وقعت ہو کر نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی ، سیاسی اور معاشی طور پر حاشیہ پر چلے جائیں ۔
بی جے پی کی حکومت منصوبہ بند اور منظم سازش کے تحت اردو بولنے والوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش مسلسل کررہی ہے۔ اسی اردو مخالف منصوبہ کے تحت پورے ملک میں ہندی زبان کو مسلط کئے جانے کے پلان کاردّ عمل بھی دیکھا گیاہے ۔ یوم ہندی کے موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ کا متنازعہ بیان جس میں انھوں نے ہندی زبان کو پورے ملک میں قومی زبان بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی ایک زبان ہو، جس کی وجہ سے غیر ملکی زبان کو جگہ نہ ملے۔
وزیر اعظم مودی کا وہ بیان ابھی ذہن سے اوجھل نہیںہوا ہوگا جس میں انھوں نے اردو، ہندی مشترکہ زبان ہندوستانی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ہندی زبان کا ذکرکیا تھا اورکہا تھا کہ ’ہندی کو 2019 میں دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کا درجہ ملنے پر ہر ہندوستانی کو اس پر فخر ہونا چاہئے۔‘ اس بیان میں اردو زبان کے خلاف سازش کی بو کومحسوس کیا جا سکتا ہے ۔ابھی ابھی کشمیر کے تعلق سے یہ خبر آ رہی ہے کہ جس کشمیر میں 1889 ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے فارسی کی جگہ اردو زبان کو یہاں کی سرکاری زبان بنایا تھا ۔ اس اردو زبان کو قصداََ ختم کیا جا رہا ہے ۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب مرکزی حکومت کا ایک سائن بورڈ صرف ہندی اور انگریزی زبان میں سامنے آ یا ۔ جس میں اردو زبان سرے سے غائب ہے ۔ جب کہ حکومت اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کشمیر کے لوگ اردو زبان ہی پڑھتے اور بولتے ہیں ۔
اردو زبان کے تعلق سے عام خیال یہ ہے کہ اردو زبان ابھی تک تمام مخالفتوں کے باوجود بچی ہوئی ہے تو اس میں ملک کے مختلف علاقوں میں صدیوں سے قائم مدارس اور خانقاہوں کاہاتھ ہے ۔ اس بات کا جیسے موجودہ حکومت کو احساس ہوا وہ پوری شدّت سے ملک کے مدارس و خانقاہوں کو بند کرانے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ان کے وجود کو ختم کرنے کے لئے منہدم کرنے میں مصروف ہو گئی ہے ۔ ابھی وقف ترمیمی قانون نافذ نہیں ہو اہے تو عالم یہ ہے کہ آئے دن ملک کے مدرسوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔ ابھی اترا کھنڈ میں مدرسوں کے خلاف بڑا ایکشن لیتے ہوئے وہاں کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے 170 سے زائد مدارس کو بند کرا دیا ہے اور مزید 500 مدارس بند کرائے جانے کا امکان ہے ۔ اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے تو اترا کھنڈ مدرسہ بورڈ کو ہی ختم کر دی ۔ اتر پردیش میں بھی سیکڑوں مدارس کو غیر قانونی طور پر سیل کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے ایسی ہی بدترین صورت حال آسام ، مدھیہ پردیش ، گجرات ، مہاراشٹر، راجستھان وغیرہ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جو اب شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔آسام مدرسہ بورڈ سے ملحق 1281 مدارس کے اقلیتی کردار کو بھی ختم کر دیا گیا ہے ۔ اتر پردیش میں تقریباََ پچیس ہزار دینی مدارس قائم تھے ۔ ان میں بڑی تعداد مدرسوں کو مختلف بہانوں سے بند اور منہدم کر دیا گیا ہے ۔
ایسے بدترین حالات میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دلّی کی جانب سے ’وکست بھارت 2047 میں اردو زبان کا مستقبل‘ جیسے کھوکھلے اور بے معنی نعرہ سے اردو عوام خوش ہونے کی بجائے ناراضگی کا اظہار کر رہی ہیں ۔ یہ ایک صرف سیاسی نعرہ ہے اس نعرہ سے اردو زبان کا فروغ ممکن ہی نہیں ہے۔دراصل اس نعرہ کے زیر عنوان پٹنہ میں سیمینار کا انعقاد مرکزی حکومت کے زعفرانی ایجنڈے کا نفاذ ہے۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
squadri806@gmail.com